قیس کہتا تھا یہی فکر ہے دن رات مجھے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
قیس کہتا تھا یہی فکر ہے دن رات مجھے
by ظریف لکھنوی

قیس کہتا تھا یہی فکر ہے دن رات مجھے
مار دے ناقۂ لیلیٰ نہ کہیں لات مجھے

رخ روشن پہ فدا اور نہ سیہ زلف کا خبط
نہ کوئی دن ہے مجھے اور نہ کوئی رات مجھے

مکتب عشق میں بیٹھا ہوا حل کرتا ہوں
جیسے الجبرا کے ملتے ہیں سوالات مجھے

بوتلیں بیچتے نخاس میں دیکھا اس کو
کس جگہ جا کے ملا پیر خرابات مجھے

غسل خانے میں یہ غسال سے مردہ بولا
جیل ہے قبر تو یہ گھر ہے حوالات مجھے

رشتۂ عمر ہے کم اور مری رسی ہے دراز
آئی چرخے سے یہ آواز نہ تو کات مجھے

نئی تہذیب نے معشوق کا فیشن بدلا
کارڈ بھیجوں تو میسر ہو ملاقات مجھے

درد دل عشق میں ہے کاہے سے سیکوں میں ظریفؔ
نہ فلالین ہی ملتی ہے نہ بانات مجھے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse