قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
by میاں داد خاں سیاح

قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو

لال ڈورے تری آنکھوں میں جو دیکھے تو کھلا
مئے گل رنگ سے لبریز ہیں پیمانے دو

ٹھہرو تیوری کو چڑھائے ہوئے جاتے ہو کدھر
دل کا صدقہ تو ابھی سر سے اتر جانے دو

منع کیوں کرتے ہو عشق بت شیریں لب سے
کیا مزے کا ہے یہ غم دوستو غم کھانے دو

ہم بھی منزل پہ پہنچ جائیں گے مرتے کھپتے
قافلہ یاروں کا جاتا ہے اگر جانے دو

شمع و پروانہ نہ محفل میں ہوں باہم زنہار
شمع رو نے مجھے بھیجے ہیں یہ پروانے دو

ایک عالم نظر آئے گا گرفتار تمہیں
اپنے گیسوئے رسا تا بہ کمر جانے دو

سخت جانی سے میں عاری ہوں نہایت اے تلخؔ
پڑ گئے ہیں تری شمشیر میں دندانے دو

حشر میں پیش خدا فیصلہ اس کا ہوگا
زندگی میں مجھے اس گبر کو ترسانے دو

گر محبت ہے تو وہ مجھ سے پھرے گا نہ کبھی
غم نہیں ہے مجھے غماز کو بھڑکانے دو

جوش بارش ہے ابھی تھمتے ہو کیا اے اشکو
دامن کوہ و بیاباں کو تو بھر جانے دو

واعظوں کو نہ کرے منع نصیحت سے کوئی
میں نہ سمجھوں گا کسی طرح سے سمجھانے دو

رنج دیتا ہے جو وہ پاس نہ جاؤ سیاحؔ
مانو کہنے کو مرے دور کرو جانے دو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse