قید میں بھی ہے جنوں دست و گریباں ہم سے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
قید میں بھی ہے جنوں دست و گریباں ہم سے
by ناطق لکھنوی

قید میں بھی ہے جنوں دست و گریباں ہم سے
آ کے خلوت میں بھی ملتا ہے بیاباں ہم سے

قیس سودائے غم گیسوئے لیلیٰ کے لئے
لے گیا چند خیالات پریشاں ہم سے

عشق میں اتنا زمانہ ہمیں گزرا ہے کہ لوگ
پوچھتے آتے ہیں اس درد کا درماں ہم سے

کوئی ناقوس و جرس کی نہیں کرتا فریاد
ہم جو نالاں ہیں تو ہر شخص ہے نالاں ہم سے

حال کا اپنے ہمیں علم نہیں ان کو ہے
راز رکھتے ہیں ہمارا بھی وہ پنہاں ہم سے

قید غم سے ہے رہائی بہت آساں ناطقؔ
شرم اس کی ہے کہ وابستہ ہے زنداں ہم سے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse