قید اور قید بھی تنہائی کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
قید اور قید بھی تنہائی کی
by محمد علی جوہر

قید اور قید بھی تنہائی کی
شرم رہ جائے شکیبائی کی

سوجھتا کیا ہمیں ان آنکھوں سے
شرط تھی قلب کی بینائی کی

در بت خانہ سے بڑھنے ہی نہ پائے
گرچہ اک عمر جبیں سائی کی

قیس کو ناقۂ لیلیٰ نہ ملا
گو بہت بادیہ پیمائی کی

ہم نے ہر ذرہ کو محمل پایا
ہے یہ قسمت ترے صحرائی کی

وقف ہے اس کے لیے جان عزیز
کعبہ کے خادم و شیدائی کی

کعبہ و قدس میں گھر کیا یہ بھی
اک ادا ہے مرے ہرجائی کی

نظر آیا ہمیں ہر چیز میں تو
اس پہ یہ دھوم ہے یکتائی کی

عشق اور جور ستم گر کا گلہ
حد ہے اے دل یہی رسوائی کی

عشق کو ہم نے کیا نذر جنوں
عمر بھر میں یہی دانائی کی

کر گئی زندۂ جاوید ہمیں
تیغ قاتل نے مسیحائی کی

ہو نہ تقلید دلا مقتل میں
کہیں موسیٰ سے تمنائی کی

نہ سہی تیغ تجلی ہی سہی
آنکھ جھپکے نہ تماشائی کی

کل کو ہے پھر وہی زنداں جوہرؔ
ٹھیک کیا آپ سے سودائی کی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse