قیدی ہوں سر زلف گرہ گیر سے پہلے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
قیدی ہوں سر زلف گرہ گیر سے پہلے
by منیرؔ شکوہ آبادی

قیدی ہوں سر زلف گرہ گیر سے پہلے
پابند ہوں پیدائش زنجیر سے پہلے

سرگشتہ ہوں دور فلک پیر سے پہلے
گردش میں ہوں میں گردش تقدیر سے پہلے

کیا لاتی ہے تیری نگہ قہر کا مژدہ
دوڑے ہوئے آتی ہے اجل تیر سے پہلے

نالوں سے انہیں ہوتی ہے نفرت عوض لطف
تقدیر بگڑ جاتی ہے تدبیر سے پہلے

مارا ہے مجھے خنجر ابرو سے کسی نے
نہلائیو آب دم شمشیر سے پہلے

گھر سے ترے دیوانے نے جب پاؤں نکالا
چھالوں نے قدم لے لئے زنجیر سے پہلے

کس طرح کہوں آپ کے ہونٹوں کی حلاوت
لب بند ہوئے جاتے ہیں تقریر سے پہلے

پابند غم زلف کا مرنا نہ چھپے گا
پہنچے گی خبر نالۂ زنجیر سے پہلے

کس حوصلہ پر طالب دیدار ہے عالم
آنکھیں تو لڑا لے کوئی تصویر سے پہلے

بے تاب ہوئے یار کی چٹکی سے نکل کر
تیر آپ تڑپنے لگے نخچیر سے پہلے

پانے کی نہیں دل کا ٹھکانا خلش غم
جب تک نہ پتا پوچھے ترے تیر سے پہلے

گھبرانے سے کیا کام منیرؔ جگر افکار
تو عرض تو کر حضرت شبیر سے پہلے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse