قول تیرا شوق میرا چاہیئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
قول تیرا شوق میرا چاہیئے
by داغ دہلوی

قول تیرا شوق میرا چاہیئے
جھوٹ سچ کے واسطے کیا چاہیئے

ہو سکے کیا اپنی وحشت کا علاج
تیرے کوچے میں بھی صحرا چاہیئے

گو تری نظروں سے کل گر ہی پڑیں
آج تو کوئی سہارا چاہیئے

ہر طرف ہے تیرے بیماروں کا شور
ہر گلی میں اک مسیحا چاہیئے

کیوں نہ چھائے مے کشوں کے سر پر ابر
کچھ گنہ گاروں کا پردہ چاہیئے

کاش دے کر کچھ گرہ سے ہو نجات
تجھ کو زاہد دین و دنیا چاہیئے

کیوں نہیں دیتے تسلی داغؔ کو
اس سے لیجے گر تمنا چاہیئے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse