قواعد میر/تذکیر و تانیث

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

تذکیر و تانیث


مذکر و مؤنث اسما کی دو قسمیں ہیں: حقیقی اور غیر حقیقی۔ ذی روح اسمائے حقیقی ہیں، ان میں نر مذکر اور مادہ مؤنث ہے۔

قاعدہ: جس اسم ذی روح کے آخر میں الف ہے وہ مذکر ہے جیسے کوّا، بگلا، کچھوا، طوطا، جھینگا، مینڈھا، دُنبا، نیولا، بچہ، کھوپرا، تیندوا، بُھجنگا، بھٹیارا، سقا، لڑکا، دولھا، دادا، چچا، پھوپا، ابا، ابلقا، چڑا، بیٹا، باوا، سسرا، دادا، نانا، گھوڑا، گدھا، بکرا، چیتا، اندھا، کانا، بوچا، لنگڑا، لولا، کتا، بھینسا۔ اس قاعدے سے اَما، مینا، اَنا، ماما مستثنیٰ ہیں۔

قاعدہ:جس اسم ذی روح کے آخر میں (یا) ہو مؤنث ہے جیسےبندریا، چڑیا،کتیا، گھوڑیا، بٹیا۔ اس قاعدے سے بھیڑیا، بنیا اور تمام اسم فاعل جعلیا، فریبیا وغیرہ مستثنیٰ ہیں۔

قاعدہ: جس اسم کے آخر میں (ر) ہو اکثر مذکر ہوتا ہے جیسے کبوتر، چکور، مور، تیتر، مار، شیر، لنگور۔ اس قاعدے سےبٹیر مستثنیٰ ہے کیونکہ وہ مذکر مؤنث دونوں طرح بولا جاتا ہے۔

قاعدہ: جن کےآخر میں (نی) ہے وہ اسمائے ذی روح مؤنث ہیں جیسے ہتھنی، نٹنی، ڈومنی، اونٹنی، شیرنی، مغلانی، شیخانی، اومتانی، سورنی، نانی، ممانی، مہترانی، کمھارنی، مرزانی، برہمنی، چمارنی، سقنی، رانی، کھترانی، باہمنی، مُلّانی۔

قاعدہ:جس مذکر ذی روح کے آخر میں الف ہوتا ہے اس الف کو یائے معروف سے بدل کر مؤنث بنا لیتے ہیں بشرطیکہ الف کے ما قبل (ی) نہو جیسے بکرا بکری، گھوڑا گھوڑی، چھوکرا چھوکری، لونڈا لونڈی، بیٹا بیٹی، لڑکا لڑکی، کوا کوی، سالا سالی، بھیڑا بھیڑی، پدا پدی، پھوپھا پھوپھی، نانا نانی، دادا دادی، گدھا گدھی، طوطا طوطی، مکھا مکھی، مکڑا مکڑی، چیونٹا چیونٹی، چچا چچی۔ اس قاعدے سے چیتا، شکرا، چڑا، کتا، مینڈھا، جھینگا، بھجنگا، بگلا مستثنیٰ ہیں۔ جس ذی روح کے آخر میں یائے معروف ہے وہ مؤنث ہے جیسے مکھی، تتلی، ٹڈی، مماکی، مکڑی، چیونٹی، کمھاری، بلی، لڑکی، بیٹی، پھپی۔ وہ سب مؤنث ہیں مگر ہاتھی، گندھی، دھوبی، نائی، قصائی، مولوی، ساقی، حاجی، بھائی اس سے مستثنیٰ ہیں۔

اسمائے ذی روح ناطق میں نر مذکر اور مادہ مؤنث ہے لیکن ذی روح غیر ناطق میں کبھی مذکر مؤنث میں فرق نہیں ہوتا جیسے لال نر و مادہ دونوں کو مذکر بولتے ہیں، چیل نر و مادہ دونوں کو مؤنث بولتے ہیں۔

اسمائے غیر حقیقی[edit]

مذکر و مؤنث غیر حقیقی وہ اسما ہیں جو ذی روح نہوں اور فرضی طور پر اہل زبان نے ان کو مذکر و مؤنث مان لیا ہو۔غیر حقیقی اسما کی دو قسمیں ہیں: ایک تو وہ کہ جس میں حروف مقررہ اہل زبان پائے جاتے ہیں یا قانون اور قیاس کے تحت میں ہیں ان کو قیاسی کہتے ہیں۔جیسے توا مذکر ہے اس لیے کہ اس میں حرف الف حروف مقررہ تذکیر موجود ہے، ہانڈی مؤنث ہے اس لیے کہ اس میں حرف یائے معروف حروف مقررہ تانیث موجود ہے۔ دوسرے وہ الفاظ جو اپنے قاعدے کے خلاف مستعمل ہوں جیسے موتی، پانی، دہی کہ یائے معروف موجود ہے لیکن مذکر بولے جاتے ہیں یا وہ الفاظ جن پر کوئی قیاس اور قانون لازم نہ آتا ہو صرف استعمال اہل زبان کی پابندی کی جاتی ہو جیسے برف مؤنث ہے اس میں کوئی حرف تذکیر و تانیث کامقررہ نہیں ہے، محض استعمال فصحا سے اس کو مؤنث تسلیم کر لیا ہے ان کو سماعی کہتے ہیں۔

تمام حروف مفرد جو دو حرفی ہیں مؤنث ہیں اور جو سہ حرفی ہیں مذکر ہیں یہ قاعدہ مسلمہ مرزایان دہلی کا ہے۔ جیسے (بے، تے، ٹے، چے، رے، زے، طو، ظو، فے، ہے) یہ مؤنث ہیں۔ الف، جیم، دال، ڈال، ذال، سین، شین، صاد، ضاد، عین، غین، قاف، کاف، لام، میم، نون، واؤ، ہمزہ اور حروف مخلوطہ ہندی جھا، چھا، گھا وغیرہ مذکر ہیں۔

قاعدہ: تمام افعال نہ مذکر ہیں نہ مؤنث بلکہ وہ تابع ہیں اپنے فاعل کے جیسے عورت آئی، مرد آیا۔

قاعدہ:اسمائے صفت نہ مذکر ہیں نہ مؤنث بلکہ وہ تابع ہیں اپنے فاعل اور مفعول کے جیسے کالا بادل، نیلی بوتل۔ اور کبھی اسم صفت بدلتا ہی نہیں جیسے لال چڑیا، لال کمل۔ فارسی کا اسم صفت بھی نہیں بدلتا جیسے سفید کتا، سفید بلی، سیاہ ٹوپی، سیاہ بادل۔ عربی کے اسمائے صفت کبھی تذکیر و تانیث کا اثر نہیں قبول کرتے، جزوِ موصوف بن جاتے ہیں۔ عربی فارسی کے اسم تفضیل تذکیر تانیث میں اپنے مفعول کے تابع ہوتے ہیں جیسے وہ عورت مردوں سے افضل تھی، آم املی سے خوشتر تھا۔ باقی اسم صفت ہے اس کو مفعول مذکر کے ساتھ مذکر اور مفعول مؤنث کے ساتھ مؤنث بولتے ہیں میری اشرفیاں باقی ہیں، میرا روپیہ باقی ہے۔کبھی رقم کو محذوف مضمر رکھ کر بولتے ہیں میری باقی ادا کردو، اس حساب میں کتنی باقی گری، میرا تم پر کیا باقی ہے۔ کبھی ظاہر کر دیتے ہیں ایک پیسہ باقی نہ بچا، ایک کوڑی باقی نہ بچی۔

قاعدہ: اسم عدد نہ مذکر ہے نہ مؤنث، وہ تذکیر و تانیث میں اپنے معدود کا تابع ہے۔پانچ روٹیاں پکی تھیں، ایک آم آیا تھا۔ اسی طرح تخصیص کے موقع پر بھی بولتے ہیں۔ پانچویں سطر، چوتھی آیت، چھٹا صفحہ یا چھٹواں صفحہ۔

قاعدہ:اسم حالیہ اپنے موسوم کا تابع ہوتا ہے۔ کتا دم ہلاتا ہوا سامنے آیا، بلی روتی ہوئی جاتی تھی۔

قاعدہ:اسم مفعول اپنے موسوم کا تابع ہوتا ہے۔ایک شیر بھاگا ہوا آیا، کتے کی کھائی ہوئی روٹی وہ نہ کھائے گا۔ شیر مذکر ہے اس لیے بھاگا ہوا کہا، روٹی مؤنث ہے اس لیے کھائی ہوئی کہا۔

فارسی کا اسم مفعول تذکیر و تانیث کا اثر بھی نہیں قبول کرتا۔ جوشیدہ دوا پی، جوشیدہ پانی پیا۔ عربی کا اسم مفعول اثر قبول کرتا ہے۔ مقتول مرد کی لاش ملی، مقتولہ عورت کی لاش نہیں ملی۔ مرحومہ، مقتولہ، مسدودہ مؤنث کے لیے اور مرحوم، مقتول، مسدود مذکر کے لیے آتا ہے۔

قاعدہ: اسم فاعل خود نہ مذکر ہے نہ مونث، اپنے موسوم کا تابع ہے۔ کہنے والا آدمی کہتا تھا، کہنے والی عورت کہتی تھی، بھونکنے والا کتا چلا گیا، بجنے والی ڈھولک ٹوٹ گئی۔ فارسی کے اسم فاعل اتنا اثر بھی نہیں قبول کرتے۔ اس خط کی نویسندہ ایک عورت تھی، اس خط کا نویسندہ ایک مرد تھا۔ عربی کے اسم فاعل تابع ہیں۔ قاتلہ عورت کا پتہ لگ گیا، قاتل مرد کا پتہ لگ گیا۔

قاعدہ: تمام وہ ہندی اسما جو غیر ذی روح ہیں اور جن کے آخر میں الف ہے، مذکر ہیں بشرطیکہ ماقبل الف (ے) نہو جیسے اولا، انڈا، ڈنڈا، پونڈا، گنّا، پنڈا۔

قاعدہ:تمام وہ ہندی اسما جو غیر ذی روح ہیں اور جن کے آخر میں یا ہے اور وہ امالہ قبول نہیں کرتے مؤنث ہیں جیسے چندیا، چھالیا، لُٹیا، ہَنڈیا، ٹھلیا، ڈلیا، لیّا۔

قاعدہ:تمام وہ ہندی اسمائے غیر ذی روح جن کے آخر میں یا ہے اور وہ امالہ قبول کرتے ہیں مذکر ہیں جیسے پہیا، موتیا۔

قاعدہ: وہ سب غیر ذی روح اسما جن کے آخر میں یا ئے معروف ہو، مؤنث ہیں جیسے رضائی، روئی، روشنی، دری، ڈلی، کنگھی، چوٹی، پٹی، دھوتی، لُنگی، ڈوئی، سوئی، جوہی۔ مگر دہی، موتی، پانی، جی، گھی اس قاعدے سے مستثنیٰ ہیں۔

قاعدہ: تمام وہ ہندی فارسی عربی الفاظ جن کے آخر میں الف یا ہائے ہوز ہو اور جو غیر ذی روح ہوں اور امالہ قبول کرتے ہوں سب بہ اتفاق مذکر ہیں اس کلیہ سے مستثنیٰ ایک لفظ بھی نہیں ہے۔ جیسے روپیہ، پیسہ، پنجہ، نیچہ، شوربا، حادثہ، اکھاڑا، اندھا، ڈھٹیارا، شعلہ، بہرا، جملہ۔

قاعدہ: فارسی اور عربی کے وہ اسما جو غیر ذی روح ہیں اور جن کے آخر میں الف ہے، امالہ نہیں قبول کرتے ان میں اکثر چہار حرفی مذکر ہیں اور سہ حرفی مؤنث ہیں جیسے دریا، صحرا مذکر ہیں اور وفا، ضیا، رضا، حنا، جفا، قضا، دعا مؤنث۔

قاعدہ: وہ غیر ذی روح اسمائے عربی، فارسی، ہندی جو عزت، لیاقت، گت، معاملت کے قافیہ پر آتے ہیں سب مؤنث ہیں جیسے چھت، شوکت، گت، معاملت، لیکن خلعت، شربت، ست مستثنیٰ ہیں۔


جملوں کی تذکیر و تانیث کا بیان[edit]

قاعدہ: فعل لازم میں فاعل کے لحاظ سے تذکیر و تانیث آتی ہے۔ جیسے عورت آئی، مرد گیا۔ مصرع؎

کس لیے ٹھوکریں کھانے کو قیامت آئی


مصرع؎

کھا کے تیغ نگہ یار دلِ زار گرا


قیامت مؤنث ہے اس لیے آئی کہا، گرنا فعل لازم ہے۔ دل فاعل مذکر ہے اس لیے گرا کہا کہ تذکیر فاعل ظاہر ہو۔

قاعدہ: جب فاعل متعدی مع علامت ہے اور اُس کے ساتھ مفعول بھی ہے اور علامت مفعول نہیں ہے تو تذکیر و تانیث بلحاظ مفعول آئے گی۔ ظفر نے ایک نارنگی کھائی، ہُرمُزی نے اپنا کان پکڑا۔ اور اگر فاعل نہو جب بھی بہ لحاظ مفعول تذکیر و تانیث آئے گی۔ لاکھوں روپیہ آتش بازی میں پھونک دیا، ایک کوڑی خدا کی راہ میں نہ دی۔

قاعدہ: اگر فاعل متعدی مع علامت ہے اور مفعول نہیں ہے تو تذکیر و تانیث کا کچھ لحاظ نہیں کیا جائے گا۔ عورت نے کہا، مرد نے کہا۔متعدی مجہول میں مفعول کا لحاظ تذکیر و تانیث میں کیا جاتا ہے۔ احمد گرفتار کیا گیا، زینت بیگم بھگا دی گئی، لونڈی کو مار پڑی۔ جب کبھی مفعول کو فاعل بنا لیتے ہیں تو اس کی تذکیر و تانیث کا لحاظ کرتے ہیں:

ایک آنسو نہ ترا اے بتِ خونخوار گرا


جملے میں آنسو مفعول تھا، فعل کے ساتھ وہی فاعل لازم بنا اس لیے آنسو نہ گرا کہا کہ گرنا کا فاعل آنسو تھا۔ جب جملے میں علامت مفعول آتی ہے تو تذکیر و تانیث کا لحاظ نہیں کیا جاتا جیسے روٹی کو پھیک دیا، لونڈی کو مارا، آدمی کو بلایا۔

اور جب علامت نہیں آتی تو تذکیر و تانیث کا لحاظ بہ اعتبار مفعول کیا جاتا ہے۔ روٹی پھیک دی، لونڈی پٹی، آبرو خاک میں ملی۔

قاعدہ: ترکیب اضافی میں مضاف کے لحاظ سے تذکیر و تانیث آئے گی جیسے مٹی کا بندر، گیہوں کی روٹی، میرا بیٹا، میری بیٹی، ایک ملاح کا چھوکرا، خط کی رسید، مچل کے بیٹھ گئی اور بھی صدا میری، تاج محل کا روضہ، عدالتوں کی مہریں۔

قاعدہ: صفت کے جملے موصوف کے لحاظ سے تذکیر و تانیث آتی ہے۔ کھٹا نیبو، میٹھی نارنگی، کالا کمل، نیلی دری، ٹوٹی ہوئی چارپائی، پکا آم۔ کبھی موصوف محذوف بھی ہوتا ہے جیسے بے پر کی اڑاتے ہو۔ اس میں موصوف چڑیا مضمر ہے یعنی بے پر کی چڑیا اڑاتے ہو۔ محاورے میں اس کے معنی یہ ہیں کہ بے تکی بات کہتے ہو۔

قاعدہ: جملے میں اگر مضاف درمضاف ہے، جب بھی ہر ایک مضاف کے لحاظ سے تذکیر وتانیث الگ الگ آئے گی جیسے تمھاری ممانی کی نواسی کا مکان تیار ہے۔

قاعدہ: ترکیب اضافی فارسی میں بھی اسم کی تذکیر و تانیث مضاف کے لحاظ سے آئے گی۔ ہنگامۂ محشر بپا تھا، قطرۂ آب میسر نہ تھا۔

مجرئی خاتمۂ لشکرِ شبیر ہوا چشمِ حیرت زدہ ہر حلقۂ زنجیر ہوا ہٹتی ہے جس سے آتشِ دوزخ ہزار کوس پھر مغفرت پناہ نہ کیوں ہو خطابِ اشک


بزم عزا بپا تھی، چشم امید جاتی رہی۔

اگر اضافت توصیفی فارسی ہے تو موصوف کے لحاظ سے تذکیر و تانیث آئے گی۔ تیغ ظلم چل رہی ہے؎

لباسِ سرخ پہنا اُس حسیں نے


اس میں لباس مذکر ہے، اس لیے پہنا کہا۔

اگر مفعول میں ترکیب اضافی ہے تو بھی تذکیر و تانیث مضاف کے لحاظ سے آئے گی جیسے میں نے اس کی مدد کی، اس میں مدد مضاف ہے اس لیے علامت تانیث آئی۔ اگر مفعول ترکیب اضافی نہیں رکھتا اور علامت مفعول بھی نہیں ہے اور فعل اسم مؤنث سے بنایا گیا ہے توتذکیر و تانیث مفعول کے لحاظ سے آئے گی جیسے میں نے ملک فتح کیا، اس میں فتح مؤنث ہے جس میں فعل مرکب کیا گیا ہے اور مفعول ملک مذکر ہے لہذا مفعول کے لحاظ سے علامت تذکیر آئی، میں نے مکان تعمیر کیا۔ ا س میں تعمیر مؤنث ہے جس سے فعل مرکب کیا گیا ہے، مکان مذکر ہے اس لیے علامت تذکیر آئی۔

قاعدہ: ہم کا لفظ صیغۂ جمع متکلم میں آتا ہے اور تعظیماً واحد متکلم کے ساتھ بھی بولتے ہیں۔ جب ایسا صیغہ مستعمل ہو تو امتیاز تذکیر و تانیث نہیں کیا جاتا اور دونوں حالتوں میں ایک ہی طرح استعمال کیا جاتا ہے۔ عورتوں نے کہا ہم آتے ہیں، لڑکوں نے کہا ہم سبق یاد کرتے ہیں۔

قاعدہ: اگر دو اسم ذی روح ناطق ہیں ایک مؤنث ایک مذکر اس صورت میں فعل کی تذکیر و تانیث مذکر کے لحاظ سے آئے گی۔جب گھر میں میاں بی بی آئے تو کھانا پکا، دولھن دولھا چوتھی کھیل رہے تھے، ماں باپ خوش تھے، لیکن لونڈی غلام تو اپنے مالک کی خدمت کرتے ہیں۔

اگر ذی روح کے درمیان حرف عطف اور اسم عدد ہے تو تذکیر و تانیث اسم آخر کے لحاظ سے لی جائے گی، ایک لڑکا اور ایک لڑکی پیدا ہوئی۔ اگر حرف عطف نہیں ہے تو بھی اسم آخر کا لحاظ کیا جائے گا، پانچ بیٹیاں ایک لڑکا تھا۔ اگر دونوں کے لیے ایک صفت بیان کی گئی اور دونوں شریک صفت ہیں تو علامت تذکیر و تانیث جمع ہو کربلحاظ تذکیر آئے گی، ایک بیٹا اور ایک بیٹی تو پکی عمر کے ہیں۔

قاعدہ: اگر اسم مذکر مؤنث میں ایک جمع ہے توتذکیر تانیث بلحاظ اسم آخر آئے گی، ایک لڑکا اور سات بیٹیاں خدا نے دی تھیں۔

اگر اسم غیر ذی روح ہے تو تذکیر و تانیث بلحاظ اسم آخر آئے گی امرود اور نارنگی کھائی، دال چاول پکائے۔ گوشت روٹی کھائی۔ اگر اسم ذی روح غیر ناطق ہیں تو ان کی تذکیر و تانیث بلحاظ اسم آخر آئے گی، بیل بکری بندھی ہے، مرغ مرغی بند کی، بلی بندر کھل گیا۔

قاعدہ: مصدرمرکب جو ایک اسم اور ایک ہندی مصدر سے بنائے جاتے ہیں تذکیر و تانیث میں اپنے مفعول اور فاعل کے تابع ہوتے ہیں۔ احمد تحریر کرنے لگا، محمود تقریر کرنے لگا۔ یہ صورت فاعلی ہے۔ منشی نے کتاب تحریر کی، لڑکی نے سبق شروع کیا۔یہ صورت مفعولی ہے۔

مگر عرض کرنا اور گزارش کرنا کا استعمال دونوں طرح آتا ہے یعنی عرض کرنا کو جب مصدر مرکب بنا لیتے ہیں اور کہنا کے معنی پر بولتے ہیں تو کہتے ہیں، میں نے عرض کیا، میں نے گزارش کیا اور جب کرنا کو مصدر تصور کرتے ہیں اور مؤنث کو مفعول مؤنث تو عرض کی اور گزارش کی بولتے ہیں۔ لیکن جب ان کے ساتھ کوئی اسم ہوتا ہے تو ان دونوں کو فعل مرکب بنا کر مذکر ومؤنث بولنا لازم آتا ہے۔ جیسے میں نے ایک بات عرض کی، میں نے ایک جملہ گزارش کیا۔ قیاس سے معلوم ہوتا ہے کہ عرض اور گزارش کو اسم مؤنث خیال کرکے مفعول بنا کر محض کرناکو فعل قرار دے کر لوگ اس طرح بولنے لگے۔

اگر جملے میں اسم مذکر ہے تو فعل کو اُس کی اطاعت اظہار تذکیر میں اس طرح کرنا ہوگی کہ صیغے اور علامت صیغے میں اس کا اثر پایا جائے جیسے سوداگر آیا ہے۔ اس میں آیا مذکر واحد ہے اور ہے بھی واحد ہے۔گھوڑے آئے ہیں، اس میں اسم جمع ہے اس لیے آئے جمع مذکر ہے اور ہیں بھی جمع ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ واحد مذکر کے ساتھ صیغے کے سب اجزا واحد بولے جاتے ہیں اور جمع مذکر کے ساتھ تمام اجزا جمع مذکر بولے جاتے ہیں دروازے پر ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا، دو خط پڑے ہوئے تھے۔ لیکن اسم مؤنث ہے تو بحالتِ واحد فعل کے سب اجزا اس کے تابع رہیں گے اور بحالت جمع فقط علامت پر اس کی اطاعت لازمی ہوگی اور اگر علامت نہ ہوگی تو صیغے کو اثر قبو ل کرنا پڑے گا جیسے بلی آئی ہے۔ اس میں بلی اسم واحد مؤنث ہے، آئی ماضی مؤنث واحد ہے، علامت ماضی قریب واحد ہے۔ بلیاں آئی ہیں، اس میں بلیاں جمع مؤنث ہے۔ آئی ماضی مؤنث صیغۂ واحد ہے، ہیں علامت جمع ماضی قریب۔ بلّیاں آئیں، اس میں بلّیاں جمع مؤنث ہے، فعل میں کوئی علامت ثانی نہیں ہے اس لیے صیغے کو جمع مؤنث بنا لیا۔ تو کیا آپا تم بڑے بھائی کے لیے رو رہی تھیں؟ نعیمہ نے اس وقت اپنے تئیں ایسا بنا لیا گویا دیر سے پڑی سوتی ہے، یہ باتیں ذہن میں بھی نہیں آئیں۔

قاعدہ: اسم مصدر کی علامت یائے معروف سے بدل کر فصحائے دہلی بولتے ہیں اور مصدر کو بجائے فعل استعمال کرتے ہیں۔ جیسے روٹی کھانی تھی، بازار سے ایک لُٹیا لانی ہوگی، تم کو مکھی مارنی پڑے گی، نیند آنی دشوار ہے۔ لیکن فصحائے لکھنؤ کہتے ہیں کہ مصدر اسم مذکر ہے اور کوئی مذکر اسم یائے تانیث کی تصریف قبول نہیں کرتا اس لیے ان کا استعمال اس طرح ہے: روٹی کھانا تھی، بازار سے ایک لُٹیا لانا ہوگی، تم کو مکھی مارنا پڑے گی، نیندآنا دشوار ہے۔