قواعد میر/ادب کلام

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search


اَدب کلام


نظم ہو یا نثر سب میں ادب کلام کی ضرورت ہے۔ تمام زبانیں اسی وجہ سے علمی بن جاتی ہیں کہ ان کا ادب کلام عام ہوجاتا ہے۔ ادب کلام یہ ہے کہ واضعین زبان کی پیروی کی جائے اور اُن کے نقش قدم پر چل کر زبان کی ایک مستند شاہ راہ بنائی جائے، جو حدود مقررہ سے باہر قدم نکالے وہ نامقبول ٹھہرایا جائے۔ اسی طرح پیروی کرتے کرتے ہر جگہ ایک زبان ہوجاتی ہے اور جو لوگ اس کے خلاف لفظ استعمال کرتے ہیں ان کی زبان پایۂ اعتبار سے ساقط ہو جاتی ہے۔ دہلی اور لکھنؤ جو اُردو زبان کے مستند شہر ہیں وہاں بھی ایسے خدا کے بندے ہیں جو عام بول چال کے خلاف غلط الفاظ بولتے ہیں جن کو فصحائے زبان قبول نہیں کرتے۔ اس سے ان کا شمار عوام میں ہے اور ان کی تقلید روا نہیں۔ بہت لوگ تخت کو تَخَت، سخت کو سَخَت، تسبیح کو تسبی، بیگانہ کو بگانہ، دیوانہ کو دوانہ، دیوار کو دیوال، ہے کو ہیگا بولتے ہیں۔ اسی طرح بعض مرکب جملے جیسے “شب لیلۃ القدر”، “للہ کے واسطے” وغیرہ وغیرہ بولتے ہیں۔ اسی طرح اطراف ہند میں خلاف محاورہ لکھنؤ و دہلی محاورات کا ستعمال کرتے ہیں جیسے “مجھ سے کہا” کی جگہ بعض لوگ “مجھ کو کہا” بول جاتے ہیں یا جیسے “اس کے بعد کہا”کی جگہ“اس کے بعد میں کہا” بولتے ہیں، “مجھے آنا” کی جگہ “میں نے آنا” اور “مجھے” کی جگہ “میرے کو” اور “مجھ کو” کے بدلے “میرے تئیں” اور “سے”کی جگہ “کر” جیسے “اس وجہ کر میرا آنا نہیں ہوا” یعنی “اس وجہ سے میرا آنا نہیں ہوا”۔ بعض لوگ موصوف کو محذوف کر کے صرف صفت کا استعمال کر جاتے ہیں۔جیسے “کل سے میری لڑکی کی طبیعت بدمزہ ہے” اس میں بد مزہ صفت اور طبیعت موصوف ہے اس کو اس طرح بولتے ہیں “کل سے میری لڑکی بدمزہ ہے” اور بعض متعدی جملے کو لازم بنا کر بولتے ہیں جیسے “میں نے کیا ہے” کو “میں کیا ہوں”۔ بعض مرکب مصادر ایسے ہیں جو خلاف صلہ مستعمل ہونے لگے ہیں اور اطراف و جوانب میں اس کا خراب اثر ایسا پھیلتا جاتا ہے جیسے بنا لینا، اٹھا لینا، چُن لینا، سُن لینا فصیح ہیں اور بکثرت بولے جاتے ہیں؛ اسی بنیاد پر بعض لوگوں نے “دے لینا”بھی بنا لیا ہے۔ وہ کہتے ہیں “ٹوپی سر پر دے لو” یعنی پہن لو، یہ غلط ہے۔ اور اسی طرح پا لینا بھی لوگ بولنے لگے یہ بھی غلط ہے۔ بعض پہننا کو پہرنا بولتے ہیں اور جاگتے کو جگتے اور دکھائی دینا کی جگہ دِکھتا بولتے ہیں جیسے “مجھے دکھائی نہیں دیتا” اس کو کہتے ہیں“مجھے دکھتا نہیں” اور “ادا کرنا” کو “ادا لینا”اور پکڑنا کی جگہ“جا لینا” جیسے “میں نے اس کو جا لیا” یعنی پکڑلیا اور کبھی چلے جانا کی جگہ بھی جیسے “جلدی کیا ہے، جا لینا”۔ اسی طرح بعض خلاف تلفظ اُردوئے معلیٰ مؤنث کے واحد کو جمع نہیں کرتے اور بجائے جمع بول جاتے ہیں جیسے “میرے پاس چارکتاب رکھی ہیں” یہ غلط ہے۔ یوں کہنا چاہیے “میرے پاس چار کتابیں رکھی ہیں”۔ اسی طرح ماہ صیام میں شب کو اٹھ کر جو کھانا کھاتے اور پانی پیتے ہیں اُسے “سحری کھانا” بولتے ہیں مگر اطراف میں “سحری کرنا” بولنے لگے۔

ایک سخت خرابی یہ بھی ہے کہ جو لوگ محاورات و اصطلاحات زبان اردو میں وقوف نہیں رکھتے لیکن زبان عربی و فارسی کے ماہر ہیں اردو میں فارسی عربی کے غیر مانوس الفاظ بترکیب اضافات کثیرہ آمیز کر کے اس کی اصلی خوبیوں کو مِٹا رہے ہیں، اس سبب سے غریب اردو کے چہرے پر بدنما دھبہ آنے کا خوف ہے جیسے شذرات، احساسات، اضاعت مالی۔

اسی طرح جملوں میں بھی ایسی بھونڈی زبان بولی جاتی ہے جو ادب کلام کو برباد کرتی ہے اور صرف نحو کی ہڈی پسلی ٹوٹ جاتی ہے۔ یعنی اسم کی جگہ فعل اور فعل کی جگہ فاعل اور فاعل کی جگہ مفعول اور مفعول کی جگہ حرف استعمال ہوتا ہے جیسے “پس تحقیق کہ آیا ہے بیچ اس آیۂ شریفہ کی تفسیر میں کہ معمول داؤد کا تھا یہ”، ایسے جملے زبان کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اسی طرح بعض لوگ زبان سنسکرت کے غیر متعارفہ الفاظ شامل کرتے ہیں جن کے بولنے اور سمجھنے میں دماغ اور زبان کو سخت تکلیف پہنچتی ہے یہ سب ادب کلام کے خلاف ہے۔

بعض لوگ اضافت کی جگہ علامت مفعول بو ل جاتے ہیں جیسے “اس کو دور کا ارادہ ہے”، یہ بھی غلط ہے اس طرح بولنا چاہیے “اس کا دور کا ارادہ ہے” یا اس طرح سے “میں رکھ دیا ہوں” یعنی “میں نے رکھ دیا ہے” کی جگہ بولتے ہیں۔ اسی طرح “مان لیں گے” کی جگہ “مان لیویں گے”، اسی طرح تتلی کو تتری، گھینگا کو گھیگا، مچھلی کو مچھی، گتھی کو گلچھتی، ایک کو ایک ٹھو بولتے ہیں؛ یہ سب واجب الصحت ہیں اور بعض لوگ اسمائے صفت کو ترکیب دے کر غلط اسم فاعل بنا لیتے ہیں لال والا، کالا والا، سفید والا یہ بالکل غلط اور ناجائز ہے۔ بعض شعرا بھی اردو زبان کی عدم واقفیت کے سبب سے اردو فارسی الفاظ اور کثیر اضافتیں و حروف زوائد فارسی و حروف منادی لا کر خلاف طرز میرزایان دہلی نظم کے دائرے میں قدم رکھ جاتے ہیں جو قابل احتیاط ہے جیسے فارسی کے مصدر اردو میں معنی مصدری کے ساتھ استعمال کیے جاتے ہیں۔

رفتن، گفتن کا استعمال اور از، در، بر کا استعمال جو مخصوص حرف ربط فارسی ہیں اور ہندی مخلوط یا کو تلفظ میں لانا ناجائز ہے جیسے پیار کو پَیار بفتح بولنا یانظم کرنا یانون ترکیبی کو بہ اعلان نظم کرنا یا بولنا جیسے دلِ ناتواں، تن بے جاں وغیرہ وغیرہ۔یا عربی لفظ کو فارسی لفظ کے ساتھ ترکیب دے کر اور اضافت فارسی کو برقرار رکھ کر بولنا جیسے “آفتاب بالکسوف” و “مہتاب بالخسوف”، لیکن بعض باتیں خلاف رسم کتابت بھی شعرا نے جائز کر لی ہیں اور قدما فصحا مرزایان دہلی بھی جائز رکھتے ہیں جیسے قافیہ ھ کا ساتھ الف کے جب لفظ مفرد ہو مرکب نہو، مژہ کو مژا لکھ کر جفا کے ساتھ ہم قافیہ کر سکتے ہیں یا الف مقصورہ عربی جو بشکل یا لکھا جاتاہے جیسے موسیٰ، عیسیٰ، دعویٰ کو موسا، عیسا، دعوا لکھ کر شیدا کے قافیے میں لا سکتے ہیں۔

بعض نے اصول مفروضہ شاعری سے انحراف کر کے الگ قدم رکھنا شروع کیا ہے۔ لباس تشبیہ و استعارہ کی آڑ میں تکرار اضافت کر کے الفاظ قبیح و تشبیہ خلاف عقل سلیم کو نظم کیاہے، اس روش سے احتیاط لازم ہے۔ جیسے تلوار کی تعریف میں کہا گیا ہے ؏

اٹھتے اٹھتے پرِ جبریل پہ منھ ڈال دیا


ناظم کا مطلب یہ ہے کہ تلوار نے پر جبریل پر منھ ڈال دیا۔مگر ایسا درست نہیں ہے اس لیے کہ “منھ ڈالنا” محاورہ ہے اور وہ ذی روح کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس طرح بول سکتے ہیں کہ بلی نے پتیلی میں منھ ڈال دیا، لیکن اس طرح نہیں کہہ سکتے کہ چمچے نے پیالے میں منھ ڈال دیا۔

نوک مژہ پہ اشکِ صباحت نظام ہے

سونٹے پہ آبنوس کے چاندی کی شام ہے


معشوق کی مژہ کو آبنوس کے سونٹے سے تشبیہ دینا خلاف عقل سلیم ہے۔

رنج درباں سے چھٹے احسان جسمِ راز کے

اکبری دروازے ہیں روزن تری دیوار کے


روزن دیوار کو اکبری دروازے سے تشبیہ دینا خلاف تہذیب زبان ہے۔

سر میں پھپوند لگ گئی آنکھوں کی سیل سے


یہ ضرور ہے کہ سیل یعنی نمی سے پھپوند لگ جاتی ہے مگر بال سفید ہونے کو پھپوند سے نسبت دینا اور اُس کو آنکھوں کی سیل کا سبب ٹھہرانا خلاف مذاق سلیم ہے۔

میرے دلِ شکستہ پہ رکھنا تھا تم کو ہاتھ

ٹوٹے ہوئے مکاں میں اَڑانا ضرور تھا


معشوق کے ہاتھ کو مکان کا اَڑانا کہنا خلاف ادب کلا م ہے۔

دیکھو نزاکت ان کی کہ دَھروا کے آئینہ

لگواتے ہیں ضماد مہاسے کے عکس پر


مہاسے کے عکس پر ضماد لگانا خلاف عقل بات ہے یا اسی قسم کے چند اشعار:

چَھرّہ چلا فلک پہ بُت خانہ جنگ کا

چھوٹا ہے نیل گاؤ پہ کُتا تفنگ کا


ایضاً:

خط کترنے میں ہے مَلتا عارض گلفام کو

بام کی کھونٹی میں لٹکا دو سرِ حجّام کو


ایضاً:

پیٹوں سر سُن کر جو گانا اس بُتِ بے پیر کا

دائرہ بجنے لگے حرفِ خطِ تقدیر کا


ایضاً:

مرغ جاں پھاڑے گی بلی آپ کے دروازے کی

رختِ تن کو کاٹے گا چوہا تمھاری ناک کا


ظاہر ہے کہ دروازے کی بلی اس کھٹکے کو کہتے ہیں جو دروازے کے اندر لگا ہوتا ہے اور اس سے دروازہ بند کرتے ہیں۔اُس بلی کا مرغ جاں کو پھاڑنا استعارۂ کثیف ہے جو خلاف عقل ہے اور ناک کے چوہے کا جو محض ایک میل ہے اسے جاندار تصور کر کے استعارہ بنانااور اس کا رخت تن کو کاٹنا توہم بیجا ہے۔

وہ جامہ زیب دہریہ بالا بلند ہے

پیجامہ جس کو چاہیے ہاتھی کے تھان کا


یعنی معشوق ایسا لمبا ہے کہ اس کو ہاتھی کے تھان کا پیجامہ چاہیے یعنی بہت لمبا۔اصل حقیقت یہ ہے کہ ہاتھی تھان ایک کپڑا ہوتا ہے جس پر ہاتھی کی تصویر بنی ہوتی ہے۔ پس ایسے استعارے خلاف تلفظ روزمرہ ہیں اس سے احتیاط چاہیے ورنہ شعرپایۂ اعتبار سے ساقط ہو جائے گا۔ فقط