قلزم الفت میں وہ طوفان کا عالم ہوا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
قلزم الفت میں وہ طوفان کا عالم ہوا
by شیر سنگھ ناز دہلوی

قلزم الفت میں وہ طوفان کا عالم ہوا
جو سفینہ دل کا تھا درہم ہوا برہم ہوا

تھامنا مشکل دل مضطر کو شام غم ہوا
یاد آتے ہی کسی کی حشر کا عالم ہوا

کیا بتائیں کس طرح گزری شب وعدہ مری
منتظر آنکھیں رہیں دل کا عجب عالم ہوا

دیکھتے رہتے ہیں اس میں سارے عالم کا ظہور
آئینہ دل کا ہمارے رشک جام جم ہوا

وہ عدو کو ساتھ لائے ہیں مرے گھر دیکھیے
شربت دیدار کے نسخے میں داخل سم ہوا

آپ کے تیر نظر سے دل کا بچنا ہے محال
جس کو دیکھا آنکھ بھر کر بس وہی ہم دم ہوا

کس قدر تسکین رنجور محبت کو ہوئی
پیار سے دیکھا جو اس نے زخم کو مرہم ہوا

جب اٹھایا یار نے روئے منور سے نقاب
گر پڑا غش کھا کے کوئی اور کوئی بے دم ہوا

گلشن ہستی میں انساں کی نہیں کچھ زندگی
جو ہوا پیدا مثال قطرۂ شبنم ہوا

گیسوئے پر خم ہوئے ان کے پریشاں سوگ میں
میرے مرنے سے دیار حسن میں ماتم ہوا

بعد مرنے کے ہوا دنیا میں یوں مشہور نازؔ
شان سے تابوت اٹھا دھوم کا ماتم ہوا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse