قلزم الفت میں وہ طوفان کا عالم ہوا
قلزم الفت میں وہ طوفان کا عالم ہوا
جو سفینہ دل کا تھا درہم ہوا برہم ہوا
تھامنا مشکل دل مضطر کو شام غم ہوا
یاد آتے ہی کسی کی حشر کا عالم ہوا
کیا بتائیں کس طرح گزری شب وعدہ مری
منتظر آنکھیں رہیں دل کا عجب عالم ہوا
دیکھتے رہتے ہیں اس میں سارے عالم کا ظہور
آئینہ دل کا ہمارے رشک جام جم ہوا
وہ عدو کو ساتھ لائے ہیں مرے گھر دیکھیے
شربت دیدار کے نسخے میں داخل سم ہوا
آپ کے تیر نظر سے دل کا بچنا ہے محال
جس کو دیکھا آنکھ بھر کر بس وہی ہم دم ہوا
کس قدر تسکین رنجور محبت کو ہوئی
پیار سے دیکھا جو اس نے زخم کو مرہم ہوا
جب اٹھایا یار نے روئے منور سے نقاب
گر پڑا غش کھا کے کوئی اور کوئی بے دم ہوا
گلشن ہستی میں انساں کی نہیں کچھ زندگی
جو ہوا پیدا مثال قطرۂ شبنم ہوا
گیسوئے پر خم ہوئے ان کے پریشاں سوگ میں
میرے مرنے سے دیار حسن میں ماتم ہوا
بعد مرنے کے ہوا دنیا میں یوں مشہور نازؔ
شان سے تابوت اٹھا دھوم کا ماتم ہوا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |