قفل صد خانۂ دل آیا جو تو ٹوٹ گئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
قفل صد خانۂ دل آیا جو تو ٹوٹ گئے
by محمد ابراہیم ذوق

قفل صد خانۂ دل آیا جو تو ٹوٹ گئے
جو طلسمات نہ ٹوٹے تھے کبھو ٹوٹ گئے

سیکڑوں کاسہ سر دہر میں مانند حباب
کبھو اے چرخ بنے تجھ سے کبھو ٹوٹ گئے

ٹانکے کیا جیب کے پھر بعد رفو ٹوٹ گئے
ہو کے ناخن کبھی سینے میں فرو ٹوٹ گئے

تو جو کہتا ہے کہ دے غیر کو بھی ساغر مے
ہاتھ کیا اس کے ہیں اے آئینہ رو ٹوٹ گئے

کیونکے بن کشتیٔ مے کیجیے سیر دریا
مے کشو زیر بغل اب تو کدو ٹوٹ گئے

دیکھ کر سرمے کی تحریر تری آنکھوں میں
کافروں کے بھی ہیں زنار گلو ٹوٹ گئے

صدمۂ غم سے ترے جوں گل بازی افسوس
سارے اعضا مرے اے عربدہ جو ٹوٹ گئے

سنگ غیرت سے کئی آئینے اے عہد شکن
دیکھ کر صاف ترا روئے نکو ٹوٹ گئے

تیر دل سے وہ نکلتے ہیں کوئی جذبۂ شوق
نکلے سوفار جو سینے سے گلو ٹوٹ گئے

دل شکستہ ہی رہا بعد فنا بھی میں تو
کہ مری خاک سے بنتے ہی سبو ٹوٹ گئے

شدت گریہ سے تھا رات یہ اشکوں کا ہجوم
چشم تر پھر مرے مژگاں کے ہیں مو ٹوٹ گئے

گلشن عشق میں اللہ ہے کیا کثرت بار
بن ہوا کتنے ہی نخل لب جو ٹوٹ گئے

کہہ بہ تبدیل قوافی غزل اک اور بھی ذوقؔ
دیکھیں بٹھلائے ہے کس طرح سے تو ٹوٹ گئے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse