قفس کو جانتے ہیں یاسؔ آشیاں اپنا
قفس کو جانتے ہیں یاسؔ آشیاں اپنا
مکان اپنا زمین اپنی آسماں اپنا
ہوائے تند میں ٹھہرا نہ آشیاں اپنا
چراغ جل نہ سکا زیر آسماں اپنا
سنا ہے رنگ زمانہ کا اعتبار نہیں
بدل نہ جائے یقیں سے کہیں گماں اپنا
بس ایک سایۂ دیوار یار کیا کم ہے
اٹھا لے سر سے مرے سایہ آسماں اپنا
مزے کے ساتھ ہوں اندوہ و غم تو کیا کہنا
یقیں نہ ہو تو کرے کوئی امتحاں اپنا
شریک حال ہوا ہے جو فقر و فاقہ میں
گڑھے گا ساتھ ہی کیا اپنے مہماں اپنا
عجیب بھول بھلیاں ہے منزل ہستی
بھٹکتا پھرتا ہے گم گشتہ کارواں اپنا
کدھر سے آتی ہے یوسف کی بوئے مستانہ
خراب پھرتا ہے جنگل میں کارواں اپنا
جرس نے مژدۂ منزل سنا کے چونکایا
نکل چلا تھا دبے پاؤں کارواں اپنا
خدا کسی کو بھی یہ خواب بد نہ دکھلائے
قفس کے سامنے جلتا ہے آشیاں اپنا
ہمارے قتل کا وعدہ ہے غیر کے ہاتھوں
عجیب شرط پہ ٹھہرا ہے امتحاں اپنا
ہمارا رنگ سخن یاسؔ کوئی کیا جانے
سوائے آتشؔ ہوا کون ہم زباں اپنا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |