قفس میں اشک حسرت پر مدار زندگانی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
قفس میں اشک حسرت پر مدار زندگانی ہے
by جلیل مانکپوری

قفس میں اشک حسرت پر مدار زندگانی ہے
یہی دانے کا دانا ہے یہی پانی کا پانی ہے

ملے تھے آج برسوں میں مگر اللہ کی قدرت
وہی صورت وہی رنگت وہی جوش جوانی ہے

ہمیں وہ جان بھی لیں گے ہمیں پہچان بھی لیں گے
اتر جائے گا سب نشہ ابھی چڑھتی جوانی ہے

کلیجے سے لگا رکھوں نہ کیوں درد جدائی کو
یہی تو اک دل مرحوم کی باقی نشانی ہے

یہ سچ ہے یا غلط ہم نے سنا ہے مرنے والوں سے
ترے خنجر میں قاتل چشمۂ حیواں کا پانی ہے

بتائے جاتے ہیں اوصاف وہ اپنی اداؤں کے
یہ شان دل رباعی ہے یہ طرز جاں ستانی ہے

یہاں کیا جانیے کس طرح دیکھا ہے تصور میں
وہاں اب تک وہی پردے کے اندر لن ترانی ہے

کریں تسخیر آؤ مل کے ہم تم دونوں عالم کو
ادھر جادو نگاہی ہے ادھر جادو بیانی ہے

جلیلؔ اک شعر بھی خالی نہ پایا درد و حسرت سے
غزل خوانی نہیں یہ در حقیقت نوحہ خوانی ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse