قفس سے چھوٹنے کی کب ہوس ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
قفس سے چھوٹنے کی کب ہوس ہے
by تاباں عبد الحی

قفس سے چھوٹنے کی کب ہوس ہے
تصور بھی چمن کا ہم کو بس ہے

بجائے رخنۂ دیوار گلشن
ہمیں صیاد اب چاک قفس ہے

فغاں کرتا ہی رہتا ہے یہ دن رات
الٰہی دل ہے میرا یا جرس ہے

کٹیں گے عمر کے دن کب کے بے یار
مجھے اک اک گھڑی سو سو برس ہے

ہماری داد کے تئیں کون پہنچے
نہ کوئی مونس نہ کوئی فریاد رس ہے

گلی میں یار کی ہو جائیے خاک
مرے دل میں یہ مدت سے ہوس ہے

سفر دنیا سے کرنا کیا ہے تاباںؔ
عدم ہستی سے راہ یک نفس ہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.