قطع ہو کر کاکل شب گیر آدھی رہ گئی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
قطع ہو کر کاکل شب گیر آدھی رہ گئی
by حاتم علی مہر

قطع ہو کر کاکل شب گیر آدھی رہ گئی
اب تو اے سودائیو زنجیر آدھی رہ گئی

ساری بوتل اب کہاں آدھی میں کرتے ہیں گزر
منصفی سے محتسب تعزیر آدھی رہ گئی

شام کا وعدہ کیا آئے وہ آدھی رات کو
جذبۂ دل کی مرے تاثیر آدھی رہ گئی

ڈھل گیا عہد جوانی ہو گیا آخر شباب
زندگی اپنی بھی چرخ پیر آدھی رہ گئی

اک کشش عشق کمان ابرو کی ہے تیری تڑپ
بعد میں جو راہ تھی دو تیر آدھی رہ گئی

جبہ سائی کرتے کرتے گھس گئی لوح جبیں
میری قسمت کی جو تھی تحریر آدھی رہ گئی

ساری عزت نوکری سے اس زمانے میں ہے مہرؔ
جب ہوئے بے کار بس توقیر آدھی رہ گئی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse