قطرہ وہی کہ روکش دریا کہیں جسے
Appearance
قطرہ وہی کہ روکش دریا کہیں جسے
یعنی وہ میں ہی کیوں نہ ہوں تجھ سا کہیں جسے
وہ اک نگاہ اے دل مشتاق اس طرف
آشوب گاہ حشر تمنا کہیں جسے
بیمار غم کی چارہ گری کچھ ضرور ہے
وہ درد دل میں دے کہ مسیحا کہیں جسے
اے حسن جلوۂ رخ جاناں کبھی کبھی
تسکین چشم شوق نظارا کہیں جسے
اس ضعف میں تحمل حرف و صدا کہاں
ہاں بات وہ کہوں کہ نہ کہنا کہیں جسے
یہ بخشش اپنے بندۂ ناچیز کے لیے
تھوڑی سی پونجی ایسی کہ دنیا کہیں جسے
ہم بزم ہو رقیب تو کیونکر نہ چھیڑئیے
آہنگ ساز درد کہ نالا کہیں جسے
پیمانۂ نگاہ سے آخر چھلک گیا
سر جوش ذوق وصل تمنا کہیں جسے
آسیؔ جو گل سے گال کسی کے ہوئے تو کیا
معشوق وہ کہ سب سے نرالا کہیں جسے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |