قصر جاناں تک رسائی ہو کسی تدبیر سے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
قصر جاناں تک رسائی ہو کسی تدبیر سے
by بیدم وارثی

قصر جاناں تک رسائی ہو کسی تدبیر سے
طائر جاں کے لیے پر مانگ لوں میں تیر سے

ان کو کیا دھوکا ہوا مجھ ناتواں کو دیکھ
میری صورت کیوں ملاتے ہیں مری تصویر سے

گالیاں دے کر بجائے قم کے اے رشک مسیح
آپ نے مردے جلائے ہیں نئی تدبیر سے

صدقے اے قاتل ترے مجھ تشنۂ دیدار کی
تشنگی جاتی رہی آب دم شمشیر سے

عشوے سے غمزے سے شوخی سے ادا سے ناز سے
مٹنے والا ہوں مٹا دیجے کسی تدبیر سے

اک سوال وصل پر دو دو سزائیں دیں مجھے
تیغ سے کاٹا زباں کو سی دئے لب تیر سے

کچھ نہ ہو اے انقلاب آسماں اتنا تو ہو
غیر کی قسمت بدل جائے میری تقدیر سے

زندگی سے کیوں نہ ہو نفرت کہ محو زلف ہوں
قید ہستی مجھ کو بیدمؔ کم نہیں زنجیر سے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse