قسمت میں ہیں بربادیاں یاد وطن سے کیا غرض

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
قسمت میں ہیں بربادیاں یاد وطن سے کیا غرض
by نازش بدایونی

قسمت میں ہیں بربادیاں یاد وطن سے کیا غرض
میں پھول ہوں ٹوٹا ہوا مجھ کو چمن سے کیا غرض

تو نے پھرایا در بدر تقدیر سے کیا واسطہ
تو نے ملایا خاک میں چرخ کہن سے کیا غرض

غنچے کہیں کھل کر ہنسیں ہنس کر تپے کی کچھ کہیں
موج تبسم کو بھلا تیرے دہن سے کیا غرض

کیا قتل سے دل شاد ہے کہنا کسی کا یاد ہے
میرے شہید ناز کو قید کفن سے کیا غرض

صد چاک داماں ہو تو ہو ٹکڑے گریباں ہو تو ہو
ہم اور ہی عالم میں ہیں اب تن بدن سے کیا غرض

نازشؔ نہ چھوڑو شغل مے تقویٰ کا دعویٰ ہے ریا
تم صاف باطن رند ہو اس مکر و فن سے کیا غرض

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse