قربت بڑھا بڑھا کر بے خود بنا رہے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
قربت بڑھا بڑھا کر بے خود بنا رہے ہیں
by آرزو لکھنوی

قربت بڑھا بڑھا کر بے خود بنا رہے ہیں
میں دور ہٹ رہا ہوں وہ پاس آ رہے ہیں

اعجاز پاک بازی حیرت میں لا رہے ہیں
دل مل گیا ہے دل سے پہلو جدا رہے ہیں

وہ دل سے غم بھلا کر دل کو لبھا رہے ہیں
گزرے ہوئے زمانے پھر پھر کے آ رہے ہیں

سینے میں ضبط غم سے چھالا ابھر رہا ہے
شعلے کو بند کر کے پانی بنا رہے ہیں

معنی نہ پوچھ ظالم اس عذر بے گنہ کے
اپنے کو اول دے کر تجھ کو بچا رہے ہیں

اے بے خودی کہاں ہے جلدی مری خبر لے
بھولے تھے جو بہ مشکل پھر یاد آ رہے ہیں

لیں کام ضبط سے کیا الٹا ہے دل کا پھوڑا
اتنا ابھر رہا ہے جتنا دبا رہے ہیں

فرقت میں ساز راحت ساماں عذاب کا ہے
ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کیا جی جلا رہے ہیں

ہیں حسن کے کرشمے کیا انقلاب آگیں
غم خوار جو تھے کل تک اب خار کھا رہے ہیں

خود ان کی جستجو میں ہم دور بھاگے ورنہ
وہ کب الگ رہے ہیں وہ کب جدا رہے ہیں

لے لے کے ٹھنڈی سانسیں پوچھو نہ حال دیکھو
تم بھید کھولتے ہو اور ہم چھپا رہے ہیں

دیکھ آرزوؔ یہ رونا شانہ ہلا ہلا کر
تو آج خواب میں ہے اور وہ جگا رہے ہیں

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse