قربان ہو رہی ہے مری جاں ادھر ادھر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
قربان ہو رہی ہے مری جاں ادھر ادھر
by نسیم دہلوی

قربان ہو رہی ہے مری جاں ادھر ادھر
واں رہ پہ ہے جو زلف پریشاں ادھر ادھر

جاتے ہیں جب وہ سوئے چمن سیر کے لیے
ہوتے ہیں ساتھ عاشق نالاں ادھر ادھر

ہیں لخت دل کہیں تو کہیں پارۂ جگر
رہتے ہیں پیش چشم گلستاں ادھر ادھر

ہنگامۂ جنوں سے جو دونوں ہوئے ہیں چاک
دامن ادھر ادھر ہے گریباں ادھر ادھر

زلفیں چھٹی ہوئی ہیں جو چہرے پہ دو طرف
لہرا رہے ہیں افعیٔ پیچاں ادھر ادھر

دیکھا انہوں نے مردہ مجھے میں نے اشک بار
آئے نظر ہیں خواب پریشاں ادھر ادھر

یا دشمنوں سے قطع ہو یا مجھ سے ترک ربط
کیوں دل کو کر رہے ہو مری جاں ادھر ادھر

مطرب وہاں ہیں جمع نوا ساز اس طرف
ہوتے ہیں کل سے عیش کے ساماں ادھر ادھر

کیوں کر کروں میں بات چپ و راست یار کی
رہتے ہیں ساتھ ساتھ نگہباں ادھر ادھر

وہ اپنی ہٹ پہ ہیں مجھے اپنے کہے کی ضد
سمجھا رہے ہیں دونوں کو انساں ادھر ادھر

آنکھوں پہ سائباں ہیں مزے دید کے ہوں کیا
پھیلے ہوئے ہیں دامن مژگاں ادھر ادھر

وہ بت ہے میں ہوں صاحب دیں بہر فیصلہ
ہوتے ہیں جمع گبر و مسلماں ادھر ادھر

وہ چاہتے ہیں آئیں میں کہتا ہوں آپ جاؤں
کس لطف پر ہے رغبت احساں ادھر ادھر

نالاں وہ اقربا سے میں ہوں مخبروں سے تنگ
کس کس طرح کے دل میں ہیں ارماں ادھر ادھر

ہرجائی ان کو کہتے ہیں بے شرم مجھ کو لوگ
اٹھتے ہیں رات دن یہی طوفاں ادھر ادھر

منظور ہے جو رنجش سابق کا فیصلہ
ہر روز جمع ہوتے ہیں مہماں ادھر ادھر

ہیں پہلوؤں میں داغ جو دونوں طرف نسیمؔ
جلوہ دکھا رہے ہیں گلستاں ادھر ادھر

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse