قرار پر نہ ملو اضطراب ہو کہ نہ ہو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
قرار پر نہ ملو اضطراب ہو کہ نہ ہو
by دیا شنکر نسیم

قرار پر نہ ملو اضطراب ہو کے نہ ہو
شراب غیر کو دو دِل کباب ہو کے نہ ہو

پھنسا ہے جس کہ غم و پیچ میں ہمارا دل
وُہ زلف غیر چھوئے پیچ و تاب ہو کے نہ ہو

گلابی آنکھوں سے ساقی کی دِل بچے کیونکر
شرابیوں میں جُو بیٹھے خراب ہو کے نہ ہو

کہاں تک اشک سے آئے نہ بوئے داغ جگر
عرق گلوں کا جُو کھینچو گلاب ہو کے نہ ہو

کمال کیوں کے نہ ہو دِل کو کاہش غم میں
ہلال جب کے ہوا ماہتاب ہو کے نہ ہو

وُہ ماہ مہر سے آئے تو رشک کیا اے چرخ
کبھی قران مہ و آفتاب ہو کے نہ ہو

شعاع مہر کی صورت ہے تاب عارض یازر
نظر ٹھہر نہیں سکتی نقاب ہو کے نہ ہو

گیا جُو طالب چاہ زکن دل بیتاب
کنوئیں پہ تشنہ لب آتا ہے آب ہو کے نہ ہو

اگرچہ دِل نہیں لیکن میں آہیں بھرتا ہوں
سبق تو نوک زباں ہے کتاب ہو کے نہ ہو

نہ بوسۂ لب جاں بخش دو جُو کر کے سوال
تُو زندگانی سے گویا جواب ہو کے نہ ہو

نسیمؔ غنچہ دہانوں سے بوسہ کیوں مانگا
کرو جُو بات ہی ایسی عتاب ہو کے نہ ہو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse