قرآں کتاب ہے رخ جاناں کے سامنے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
قرآں کتاب ہے رخ جاناں کے سامنے
by رجب علی بیگ سرور

قرآں کتاب ہے رخ جاناں کے سامنے
مصحف اٹھا لوں صاحب قرآں کے سامنے

جنت ہے گرد کوچۂ جاناں کے سامنے
دوزخ ہے سرد سینۂ سوزاں کے سامنے

سکتہ ابھی ہو روح سکندر کو شرم سے
آئینہ آئے گر ترے حیراں کے سامنے

بہر امید گر اسے پھیلاؤں سوئے یار
دامان دشت تنگ ہو داماں کے سامنے

دست جنوں سے وہ بھی نہ وحشت میں بچ سکا
پردہ جو کچھ رہا تھا گریباں کے سامنے

مشاطہ ہو عزیز زلیخا اگر وہ لائے
اس مہر مصر کو مہ کنعاں کے سامنے

نادان کہہ رہے ہیں جسے آفتاب حشر
ذرہ ہے اس کے روئے درخشاں کے سامنے

دم بند اس لتوڑے کی جرأت نے کر دیا
کرتا ہے ریز بلبل بستاں کے سامنے

دیوار سرخ خون سے دیکھی پتا ملا
قاصد ٹھہر گیا در جاناں کے سامنے

کہتے ہیں روز وصل جسے پست حوصلہ
بے قدر ہے مری شب ہجراں کے سامنے

تقریر دل جلاتی ہے سننے سے اے سرورؔ
آتا ہے کون مجھ شرر افشاں کے سامنے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse