قد ترا سرو رواں تھا مجھے معلوم نہ تھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
قد ترا سرو رواں تھا مجھے معلوم نہ تھا
by سراج اورنگ آبادی

قد ترا سرو رواں تھا مجھے معلوم نہ تھا
گلشن دل میں عیاں تھا مجھے معلوم نہ تھا

دھوپ میں غم کی عبث جی کوں جلایا افسوس
اس کے سایہ میں اماں تھا مجھے معلوم نہ تھا

یار نے ابرو و مژگاں سیں مجھے صید کیا
صاحب تیر و کماں تھا مجھے معلوم نہ تھا

سب جگت ڈھونڈ پھرا یار نہ پایا لیکن
دل کے گوشہ میں نہاں تھا مجھے معلوم نہ تھا

خاک تیرے قدم پاک کی اے نور نگاہ
سرمۂ دیدۂ جاں تھا مجھے معلوم نہ تھا

میں سمجھتا تھا کہ اس یار کا ہے نام و نشاں
یار بے نام و نشاں تھا مجھے معلوم نہ تھا

روزہ داران جدائی کوں خم ابروئے یار
ماہ عید رمضاں تھا مجھے معلوم نہ تھا

نگۂ شوخ نے دل ایک کرشمہ میں لیا
کیا بلا سیف زباں تھا مجھے معلوم نہ تھا

شب ہجراں کی نہ تھی تاب مجھے مثل سراجؔ
رخ ترا نور فشاں تھا مجھے معلوم نہ تھا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse