قدم نہ رکھ مری چشم پرآب کے گھر میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
قدم نہ رکھ مری چشم پرآب کے گھر میں
by شاہ نصیر

قدم نہ رکھ مری چشم پرآب کے گھر میں
بھرا ہے موج کا طوفاں حباب کے گھر میں

کہے ہے دیکھ کے وہ عکس رخ بساغر مے
نزول ماہ ہوا آفتاب کے گھر میں

مدام رند کریں کیوں نہ آستاں بوسی
حرم ہے شیخ مشیخت مآب کے گھر میں

ہمارے دل میں کہاں آبلے ہیں اے ساقی
چنے ہوئے ہیں یہ شیشے شراب کے گھر میں

تڑپ کو دیکھ مرے دل کی برق آتش بار
خجل ہو چھپ گئی آخر سحاب کے گھر میں

دلا نہ کیونکے کروں اختلاط کی باتیں
حجاب کیا ہے اب اس بے حجاب کے گھر میں

نصیرؔ دیکھ تو کیا جلوۂ خدائی ہے
ہمارے اس بت خانہ خراب کے گھر میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse