قدرداں کوئی نہ اسفل ہے نہ اعلیٰ اپنا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
قدرداں کوئی نہ اسفل ہے نہ اعلیٰ اپنا
by امداد علی بحر

قدرداں کوئی نہ اسفل ہے نہ اعلیٰ اپنا
نہ زمین پر نہ فلک پر ہے ٹھکانا اپنا

دست شفقت سے دیا آپ نے چھلا اپنا
ہاتھ بھر بڑھ گیا سینے میں کلیجہ اپنا

آئے مستی کے دن ایام بہاری آئے
شیر کی طرح لگا گونجنے صحرا اپنا

نہ بھرا جام نہ ساقی نے کبھی یاد کیا
طاق نسیاں پہ دھرا رہتا ہے مینا اپنا

دیکھتے بھی وہ نہیں آنکھ اٹھا کر ہم کو
صاد ہوتا نہیں سرکار میں چہرا اپنا

کس کے ہاتھوں ہدف تیر بلا ہم نہ ہوئے
دل ہے مانند کماں سب سے کشیدہ اپنا

دل جلے دوو پریشاں کی طرح ہیں برباد
ہم کہیں ٹھہریں تو بتلائیں ٹھکانا اپنا

کون مشتاق ہے ہم داغ دکھائیں کس کو
دیکھیں خود صورت طاؤس تماشا اپنا

شرم بندے کی ترے ہاتھ ہے اے رب کریم
نہ کھلے خاک کے پردے میں بھی پردا اپنا

ہم کو جو رنج پہنچتے ہیں وہ کس سے کہئے
ہم کو مہمان سمجھتی نہیں دنیا اپنا

زندگی چاہئے جنگل میں بھی کچھ خوف نہیں
اے جنوں شیر کا آخر کبھی گھر تھا اپنا

طرفہ خشکی و تری کی ہے ہمیں سیر اے بحرؔ
دشت ہے اپنا غبار اشک ہے دریا اپنا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse