قدرت حق ہے صباحت سے تماشا ہے وہ رخ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
قدرت حق ہے صباحت سے تماشا ہے وہ رخ
by حیدر علی آتش

قدرت حق ہے صباحت سے تماشا ہے وہ رخ
خال مشکیں دل فرعوں ید بیضا ہے وہ رخ

نور جو اس میں ہے خورشید میں وہ نور کہاں
یہ اگر حسن کا چشمہ ہے تو دریا ہے وہ رخ

پھوٹے وہ آنکھ جو دیکھے نگہ بد سے اسے
آئینہ سے دل عارف کے مصفا ہے وہ رخ

بزم عالم ہے توجہ سے اسی کے آباد
شہر ویراں ہے اگر جانب صحرا ہے وہ رخ

سامری چشم فسوں گر کی فسوں سازی سے
لب جاں بخش کے ہونے سے مسیحا ہے وہ رخ

دم نظارہ لڑے مرتے ہیں عاشق اس پر
دولت حسن کے پیش آنے سے دنیا ہے وہ رخ

سایہ کرتے ہیں ہما اڑ کے پروں سے اپنے
تیرے رخسار سے دلچسپ ہو عنقا ہے وہ رخ

گل غلط لالہ غلط مہر غلط ماہ غلط
کوئی ثانی نہیں لا ثانی ہے یکتا ہے وہ رخ

کون سا اس میں تکلف نہیں پاتے ہر چند
نہ مرصع نہ مذہب نہ مطلا ہے وہ رخ

خال ہندو ہیں پرستش کے لیے آئے ہیں
پتلیاں آنکھوں کی دو بت ہیں کلیسا ہے وہ رخ

کون سا دل ہے جو دیوانہ نہیں ہے اس کا
خط شب رنگ سے سرمایۂ سودا ہے وہ رخ

اس کے دیدار کی کیوں کر نہ ہوں آنکھیں مشتاق
دل ربا شے ہے عجب صورت زیبا ہے وہ رخ

تا کجا شرح کروں حسن کے اس کے آتشؔ
مہر ہے ماہ ہے جو کچھ ہے تماشا ہے وہ رخ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse