قحط بنگال

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
قحط بنگال
by جگر مراد آبادی

بنگال کی میں شام و سحر دیکھ رہا ہوں
ہر چند کہ ہوں دور مگر دیکھ رہا ہوں

افلاس کی ماری ہوئی مخلوق سر راہ
بے گور و کفن خاک بہ سر دیکھ رہا ہوں

بچوں کا تڑپنا وہ بلکنا وہ سسکنا
ماں باپ کی مایوس نظر دیکھ رہا ہوں

انسان کے ہوتے ہوئے انسان کا یہ حشر
دیکھا نہیں جاتا ہے مگر دیکھ رہا ہوں

رحمت کا چمکنے کو ہے پھر نیر تاباں
ہونے کو ہے اس شب کی سحر دیکھ رہا ہوں

خاموش نگاہوں میں امنڈتے ہوئے جذبات
جذبات میں طوفان شرر دیکھ رہا ہوں

بیداریٔ احساس ہے ہر سمت نمایاں
بیتابئ ارباب نظر دیکھ رہا ہوں

انجام ستم اب کوئی دیکھے کہ نہ دیکھے
میں صاف ان آنکھوں سے مگر دیکھ رہا ہوں

صیاد نے لوٹا تھا عنادل کا نشیمن
صیاد کا جلتے ہوئے گھر دیکھ رہا ہوں

اک تیغ کی جنبش سی نظر آتی ہے مجھ کو
اک ہاتھ پس پردۂ در دیکھ رہا ہوں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse