قتل پہ تیرے مجھے کد چاہئے
Appearance
قتل پہ تیرے مجھے کد چاہئے
خوب ہے یہ اپنے کا بد چاہئے
زلف کے کوچوں کی درازی نہ پوچھ
چلنے کو واں عمر ابد چاہئے
دل کی میں کرتا نہیں جھوٹی صلاح
مال ہے سرکار کا جد چاہئے
فوج کی ہے اشک کی حالت تباہ
آہ سے اس وقت مدد چاہئے
شیخ کی عزت ہے من الواحیات
کفش نہ ہووے تو لکد چاہئے
پشم ہے یاں مسند قاقم کا فرش
گھر میں فقیروں کے نمد چاہئے
پس رو احمد ہو کہ مرنا ہے کل
راہ نہ دیدہ کو بلد چاہئے
ہم سے یہ کیا ناخوش و قائمؔ سے خوش
جو ہو میاں حصہ رسد چاہئے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |