قتل پر باندھ چکا وہ بت گمراہ میاں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
قتل پر باندھ چکا وہ بت گمراہ میاں
by نظیر اکبر آبادی

قتل پر باندھ چکا وہ بت گمراہ میاں
دیکھیں اب کس کی طرف ہوتے ہیں اللہ میاں

نزع میں چشم کو دیدار سے محروم نہ رکھ
ورنہ تا حشر یہ دیکھیں گی تری راہ میاں

تو جدھر چاہے ادھر جا کہ سحر سے تا شام
میں بھی سائے کی طرح ہوں ترے ہمراہ میاں

ہم تری چاہ سے چاہیں گے اسے بھی دل سے
جس کو جی چاہے اسے شوق سے تو چاہ میاں

لیکن اتنا ہے کہ اس چاہ میں دریا ہیں کئی
ایسے ایسے کئی ہیں جن کی نہیں تھاہ میاں

آگے مختار ہو تم ہم جو تمہیں چاہے ہیں
اس سبب سے تمہیں ہم کرتے ہیں آگاہ میاں

جب دم نزع نہ آیا وہ ستم گر تو نظیرؔ
مر گیا کہہ کے یہ حسرت زدہ اے واہ میاں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse