قتل عشاق کیا کرتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
قتل عشاق کیا کرتے ہیں
by گویا فقیر محمد

قتل عشاق کیا کرتے ہیں
بت کہاں خوف خدا کرتے ہیں

سر مرا تن سے جدا کرتے ہیں
درد کی آپ دوا کرتے ہیں

آتش غم نے مگر پھونک دیا
دل سے شعلے جو اٹھا کرتے ہیں

جامۂ سرخ ترا دیکھ کے گل
پیرہن اپنا قبا کرتے ہیں

خون روتے ہیں چمن میں بلبل
ہم گلوں سے جو ہنسا کرتے ہیں

خم ابروئے صنم کو دیکھیں
ہم یہ کعبے میں دعا کرتے ہیں

اپنے ساقی کو شب فرقت میں
پانی پی پی کے دعا کرتے ہیں

روز دو چار کا خون کرتا ہے
دست و پا سرخ رہا کرتے ہیں

مر گئے پر ہدف تیر ہے خاک
جا بجا تودے بنا کرتے ہیں

دہن زخم سے ہم قاتل کے
تیغ کو چوم لیا کرتے ہیں

شور محشر سے ڈریں کیا عاشق
ایسے ہنگامے ہوا کرتے ہیں

ہوتے ہیں دل میں نہایت نادم
خون جو بے جرم کیا کرتے ہیں

مہندی ملنے کے بہانے قاتل
کف افسوس ملا کرتے ہیں

عوض بادہ غم ساقی میں
خون دل اپنا پیا کرتے ہیں

پاؤں تک ہاتھ نہ پہنچا اس کی
ہاتھ ہیہات ملا کرتے ہیں

جو ہمیں بھول گیا ہے ظالم
اس کو ہم یاد کیا کرتے ہیں

ناتوانی نے دیے پر ہم کو
جیون پر کاہ اڑا کرتے ہیں

ہم بنے چاند کے ہالے گویاؔ ہیں
گرد اس مہ کے رہا کرتے ہیں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.