قتل عاشق کسی معشوق سے کچھ دور نہ تھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
قتل عاشق کسی معشوق سے کچھ دور نہ تھا
by خواجہ میر درد

قتل عاشق کسی معشوق سے کچھ دور نہ تھا
پر ترے عہد سے آگے تو یہ دستور نہ تھا

رات مجلس میں ترے حسن کے شعلے کے حضور
شمع کے منہ پہ جو دیکھا تو کہیں نور نہ تھا

ذکر میرا ہی وہ کرتا تھا صریحاً لیکن
میں نے پوچھا تو کہا خیر یہ مذکور نہ تھا

باوجودے کہ پر و بال نہ تھے آدم کے
وہاں پہنچا کہ فرشتے کا بھی مقدور نہ تھا

پرورش غم کی ترے یاں تئیں تو کی دیکھا
کوئی بھی داغ تھا سینے میں کہ ناسور نہ تھا

محتسب آج تو مے خانے میں تیرے ہاتھوں
دل نہ تھا کوئی کہ شیشے کی طرح چور نہ تھا

دردؔ کے ملنے سے اے یار برا کیوں مانا
اس کو کچھ اور سوا دید کے منظور نہ تھا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse