قبول کیجیے انکار کا مقام نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
قبول کیجیے انکار کا مقام نہیں
by نسیم میسوری

قبول کیجیے انکار کا مقام نہیں
یہ جام مے ہے پری وصل کا پیام نہیں

عجیب ہے یہ سراپا کمر کا نام نہیں
کچھ ان کی بے دہنی میں مجھے کلام نہیں

ہے کون شیخ و برہمن جو دل سے رام نہیں
تمہارا دیر سے کب تا حرم خرام نہیں

لیا جو مول زلیخا نے ماہ کنعاں کو
کہا جمال نے صاحب ہوں میں غلام نہیں

بہک نہ جاؤں جو پی جاؤں بحر مے ساقی
سواری ہیچ ہے جب ہاتھ میں لگام نہیں

اٹھا لے ہاتھ جفا و ستم سے اے ظالم
خدا کے پاس بھی اس سے بڑا سلام نہیں

صفیں ہیں جام کی مے خانہ اپنی مسجد ہے
بجز شراب کی بوتل کے یاں امام نہیں

جو ایک بوسۂ لب لوں ہزار شکر کروں
ترے رقیب سا میں بھی نمک حرام نہیں

میں آپ کرتی ہوں خدمت کہا زلیخا نے
تری غلامی کے لائق کوئی غلام نہیں

وظیفہ ہے ترے حسن و ادا و غمزے کا
کسی بشر کی زباں پر کسی کا نام نہیں

مرے گناہوں کو اور کس سے بخشواؤں میں
شفیع جز ترے یا سید انام نہیں

فراق میں نہیں پیتا میں آب تک مے کیا
الٰہی بندہ ترا شارب مدام نہیں

چلے نہ جائے وہ گھر کو اسی بہانے سے
سنا دو میرے جنازے کو اذن عام نہیں

ہجوم و یاس و الم دل کو میرے گھیرے ہیں
کہ منتظر ہے جماعت مگر امام نہیں

کب آنے پاتا ہے رندوں میں نام زاہد کا
ہماری بزم میں بولے کباب خام نہیں

نہ پھول جاؤ نسیمؔ ان کے پھول پھینکے پر
گلوں کی مہر و محبت کو کچھ قیام نہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse