قبلۂ دل کعبۂ جاں اور ہے
Appearance
قبلۂ دل کعبۂ جاں اور ہے
سجدہ گاہ اہل عرفاں اور ہے
ہو کے خوش کٹواتے ہیں اپنے گلے
عاشقوں کی عید قرباں اور ہے
روز و شب یاں ایک سی ہے روشنی
دل کے داغوں کا چراغاں اور ہے
خال دکھلاتی ہے پھولوں کی بہار
بلبلو اپنا گلستاں اور ہے
قید میں آرام آزادی وبال
ہم گرفتاروں کا زنداں اور ہے
بحر الفت میں نہیں کشتی کا کام
نوح سے کہہ دو یہ طوفاں اور ہے
کس کو اندیشہ ہے برق و سیل سے
اپنا خرمن کا نگہباں اور ہے
درد وہ دل میں وہ سینہ پر ہے داغ
جس کا مرہم جس کا درماں اور ہے
کعبہ رو محراب ابرو اے امیرؔ
اپنی طاعت اپنا ایماں اور ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |