قبر پر وہ بتِ گل فام آیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
قبر پر وہ بتِ گل فام آیا
by مصطفٰی خان شیفتہ

قبر پر وہ بتِ گل فام آیا
بارے مرنا تو مرے کام آیا

دو قدم یاں سے وہ کوچہ ہے مگر
نامہ بر صبح گیا، شام آیا

مر گئے پر نہ گیا رنج کہ وہ
گور پر آئے تو آرام آیا

خیر باد اے ہوسِ کام کہ اب
دل میں شوقِ بتِ خود کام آیا

شمع کی طرح اٹھے ہم بھی جب
دشمنِ تیرہ سر انجام آیا

جب مری آہ فلک پر پہنچی
تب وہ مغرور سرِ بام آیا

جلد منگواؤ شرابِ گل رنگ
شیفتہ ساقیِ گل فام آیا

س سے میں شکوے کی جا شکرِ ستم کر آیا
کیا کروں تھا مرے دل میں سو زباں پر آیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse