قبر پر باد فنا آئیے گا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
قبر پر باد فنا آئیے گا
by وزیر علی صبا لکھنؤی

قبر پر باد فنا آئیے گا
بے محل پاؤں نہ پھیلائیے گا

لاکھ ہو وصل کا وعدہ لیکن
وقت پر صاف نکل جائیے گا

جائیں دم بھر کو تو فرماتے ہیں
چھاؤنی تو نہ کہیں چھائیے گا

سر ہوئے اس کے ملمع سے نہ آپ
زلف مشکیں سے خطا پائیے گا

نہ کریں آپ وفا ہم کو کیا
بے وفا آپ ہی کہلائیے گا

اٹھ گیا دل سے دوئی کا پردا
چھپ کے اب آپ کہاں جائیے گا

کہکشاں صاف بنے گا رستہ
آپ توسن کو جو چمکائیے گا

رنگ لائے گی نزاکت بڑھ کر
پھول کے بار سے پتائیے گا

کیا کریں وصف دہن ڈرتے ہیں
منہ میں جو آئے گا فرمائیے گا

زلف کو ہاتھ لگائیں گے جو ہم
بیڑیاں پاؤں میں پہنائیے گا

دیکھیں رغبت سے تو کہتا ہے وہ شوخ
کوئی حلوا ہے کہ کھا جائیے گا

کیا کیا عشق نے کیوں حضرت دل
ہم نہ کہتے تھے کہ پچھتائیے گا

آپ چلتے تو ہیں اٹکھیلیوں سے
کوئی آفت نہ کہیں لائیے گا

اے صباؔ عشق پری رویاں میں
آدمیت سے گزر جائیے گا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse