قبر پر باد فنا آئیے گا
قبر پر باد فنا آئیے گا
بے محل پاؤں نہ پھیلائیے گا
لاکھ ہو وصل کا وعدہ لیکن
وقت پر صاف نکل جائیے گا
جائیں دم بھر کو تو فرماتے ہیں
چھاؤنی تو نہ کہیں چھائیے گا
سر ہوئے اس کے ملمع سے نہ آپ
زلف مشکیں سے خطا پائیے گا
نہ کریں آپ وفا ہم کو کیا
بے وفا آپ ہی کہلائیے گا
اٹھ گیا دل سے دوئی کا پردا
چھپ کے اب آپ کہاں جائیے گا
کہکشاں صاف بنے گا رستہ
آپ توسن کو جو چمکائیے گا
رنگ لائے گی نزاکت بڑھ کر
پھول کے بار سے پتائیے گا
کیا کریں وصف دہن ڈرتے ہیں
منہ میں جو آئے گا فرمائیے گا
زلف کو ہاتھ لگائیں گے جو ہم
بیڑیاں پاؤں میں پہنائیے گا
دیکھیں رغبت سے تو کہتا ہے وہ شوخ
کوئی حلوا ہے کہ کھا جائیے گا
کیا کیا عشق نے کیوں حضرت دل
ہم نہ کہتے تھے کہ پچھتائیے گا
آپ چلتے تو ہیں اٹکھیلیوں سے
کوئی آفت نہ کہیں لائیے گا
اے صباؔ عشق پری رویاں میں
آدمیت سے گزر جائیے گا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |