قبر میں اب کسی کا دھیان نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
قبر میں اب کسی کا دھیان نہیں
by سخی لکھنوی

قبر میں اب کسی کا دھیان نہیں
سچ ہے جب جی نہیں جہان نہیں

بند بلبل ہی کی زبان نہیں
ورنہ گل تو ہلاتے کان نہیں

دل نے خود الفت کمر کی ہے
اس میں کچھ میرا درمیان نہیں

ابھی کیا کیا نہ ہوگا حرج نصیب
ہم نہیں ہیں کہ امتحان نہیں

دیر کیوں زاہدوں نے چھوڑ دیا
کیا بتوں میں خدا کی شان نہیں

شمس کیسا چمک کے نکلا ہے
آج میرا جو مہربان نہیں

بات کیا ہے سخیؔ جو وہ ہم سے
ایسے چپ ہیں کہ کچھ بیان نہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse