قامت یار کو ہم یاد کیا کرتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
قامت یار کو ہم یاد کیا کرتے ہیں
by بخش ناسخ

قامت یار کو ہم یاد کیا کرتے ہیں
سرو کو صدقے میں آزاد کیا کرتے ہیں

زلف شب رنگ کو ہم یاد کیا کرتے ہیں
شب تاریک میں فریاد کیا کرتے ہیں

نگۂ یار کو ہم یاد کیا کرتے ہیں
دیکھ کر برق کو فریاد کیا کرتے ہیں

کوچۂ یار کو ہم یاد کیا کرتے ہیں
جا کے گل زار میں فریاد کیا کرتے ہیں

گھر جو بے یار ہے ویراں تو تصور میں مدام
خانۂ دل کو ہم آباد کیا کرتے ہیں

رشک سے نام نہیں لیتے کہ سن لے نہ کوئی
دل ہی دل میں اسے ہم یاد کیا کرتے ہیں

گزرے ہیں کوچۂ کاکل سے صبا کے جھونکے
نکہت گل کو جو برباد کیا کرتے ہیں

ہوتے ہیں جاتے ہی مکتب میں پری رو خوں ریز
کیا یہ جلادوں کو استاد کیا کرتے ہیں

پھونک دیں نالۂ سوزاں سے اگر چاہیں قفس
ہم فقط خاطر صیاد کیا کرتے ہیں

ہوتی ہے آفت خط قہر خدا سے نازل
یہ صنم ہم پہ جو بیداد کیا کرتے ہیں

ملک الموت اگر کہیے انہیں تو ہے بجا
قتل بے تیغ پری زاد کیا کرتے ہیں

تو وہ صیاد ہے جو وار کے تجھ پر لاکھوں
طائر روح کو آزاد کیا کرتے ہیں

انتقام اس کا کہیں لے نہ فلک ڈرتا ہوں
جھوٹے وعدوں سے جو وہ شاد کیا کرتے ہیں

تیرا دیوان ہے کیا سامنے ان کے ناسخؔ
جو کہ قرآن پہ ایراد کیا کرتے ہیں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.