قاضی کے منہ پہ ماری ہے بوتل شراب کی
قاضی کے منہ پہ ماری ہے بوتل شراب کی
یہ عمر بھر میں ایک ہوئی ہے ثواب کی
اے یار تیرے لب پہ تبسم نہیں نمود
پیدا ہے ماہ نو سے کرن آفتاب کی
آیا مژہ پہ لخت دل بے قرار یاد
گردش جو ہم نے سیخ پہ دیکھی کباب کی
تیری کدورتوں نے مجھے خاک کر دیا
تیرے غبار نے مری مٹی خراب کی
میری خطائیں آ نہیں سکتی شمار میں
گنتی ہو کیا ترے کرم بے حساب کی
ساقی ترے کرم سے یہ امید ہے مجھے
ہو روز حشر ہاتھ میں بوتل شراب کی
مستان عشق آئے تعلی پر اے فلک
اب خیر مانگ تو قدح آفتاب کی
نشہ زمیں سے سوئے فلک لے اڑا مجھے
ساقی شراب نے مری مٹی خراب کی
دو روز جا کے آبنہ رویوں کی بزم میں
کیا شکل ہو گئی دل خانہ خراب کی
بجلی نہیں تڑپتی ہے اے دل یہ آسمان
پرواز اڑا رہا ہے ترے اضطراب کی
ابرو کی تیغ سے جو بچا میں تو یار نے
برچھی لگائی بڑھ کے نگاہ عتاب کی
اللہ رے اثر مری بخت سیاہ کا
پیری میں احتیاج نہیں ہے خضاب کی
ناظمؔ مرے گناہ ہیں باہر حساب سے
تشویش کچھ نہیں مجھے روز حساب کی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |