قاضی کے منہ پہ ماری ہے بوتل شراب کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
قاضی کے منہ پہ ماری ہے بوتل شراب کی
by سید یوسف علی خاں ناظم

قاضی کے منہ پہ ماری ہے بوتل شراب کی
یہ عمر بھر میں ایک ہوئی ہے ثواب کی

اے یار تیرے لب پہ تبسم نہیں نمود
پیدا ہے ماہ نو سے کرن آفتاب کی

آیا مژہ پہ لخت دل بے قرار یاد
گردش جو ہم نے سیخ پہ دیکھی کباب کی

تیری کدورتوں نے مجھے خاک کر دیا
تیرے غبار نے مری مٹی خراب کی

میری خطائیں آ نہیں سکتی شمار میں
گنتی ہو کیا ترے کرم بے حساب کی

ساقی ترے کرم سے یہ امید ہے مجھے
ہو روز حشر ہاتھ میں بوتل شراب کی

مستان عشق آئے تعلی پر اے فلک
اب خیر مانگ تو قدح آفتاب کی

نشہ زمیں سے سوئے فلک لے اڑا مجھے
ساقی شراب نے مری مٹی خراب کی

دو روز جا کے آبنہ‌ رویوں کی بزم میں
کیا شکل ہو گئی دل خانہ خراب کی

بجلی نہیں تڑپتی ہے اے دل یہ آسمان
پرواز اڑا رہا ہے ترے اضطراب کی

ابرو کی تیغ سے جو بچا میں تو یار نے
برچھی لگائی بڑھ کے نگاہ عتاب کی

اللہ رے اثر مری بخت سیاہ کا
پیری میں احتیاج نہیں ہے خضاب کی

ناظمؔ مرے گناہ ہیں باہر حساب سے
تشویش کچھ نہیں مجھے روز حساب کی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse