قاصد کو دے نہ اے دل اس گل بدن کی پاتی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
قاصد کو دے نہ اے دل اس گل بدن کی پاتی
by قائم چاندپوری

قاصد کو دے نہ اے دل اس گل بدن کی پاتی
چل خود ہی لے چلیں ہم اپنے سجن کی پاتی

ہر سطر موج شیریں اک مدعا رکھے ہے
ٹک دیکھ جوئے پر خوں ہے کوہ کن کی پاتی

کاغذ ہری زمیں کا نہیں دیکھتا کہ شاید
پہنچے نہ اس ہنر سے اس کو ہمن کی پاتی

منفذ نگہ کا آنسو گھیرے ہی لیں ہیں پیارے
بانچوں سو کس طرح سے اب میں تمہن کی پاتی

آوارہ داغ دل ہیں نالے سے یوں کہ جیسے
باد خزاں سے درہم ہووے چمن کی پاتی

قائمؔ لکھا تھا اس نے آنے کا شب کو وعدہ
سو دن میں دیکھی سو دم اس سیم تن کی پاتی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse