قاصد خلاف خط کہیں تیرا بیاں نہ ہو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
قاصد خلاف خط کہیں تیرا بیاں نہ ہو
by حفیظ جونپوری

قاصد خلاف خط کہیں تیرا بیاں نہ ہو
کرنا سنبھل کے بات کہ وہ بد گماں نہ ہو

نالوں کا میرے آٹھ پہر امتحاں نہ ہو
ڈرتے نہیں کہ ایک زمیں آسماں نہ ہو

تہمت ہو بھول چوک کی پیغامبر کے سر
شکوؤں کا لطف کیا جو کوئی درمیاں نہ ہو

نالوں سے لڑ رہی ہے صدائے جرس جو آج
گم کردہ راہ کوئی پس کارواں نہ ہو

سو سن کے ایک بھی نہ کہیں ہم بجا درست
اس سے یہ کہیے آئے کہ جس کے زباں نہ ہو

اب تک وہ یاد ہیں مری اگلی عنایتیں
بس بس ہمارے حال پہ تو مہرباں نہ ہو

چھوٹی تری گلی تو یہ مجھ کو یقیں ہوا
جنت ہے وہ جہاں ستم آسماں نہ ہو

کرتے ہیں ایک ایک سے میری شکایتیں
صرف اس خیال سے کہ کوئی بد گماں نہ ہو

یہ کیا کہ سر چڑھا کے نظر سے گرا دیا
اب مہرباں ہوئے ہو تو نا مہرباں نہ ہو

دل کو کہاں ہے صدمۂ رشک عدو کی تاب
سو امتحاں ہیں اور یہ اک امتحاں نہ ہو

مرنا پھڑک پھڑک کے گوارا سہی مگر
اتنا تو ہو قفس میں غم آشیاں نہ ہو

کعبے میں بت کدے میں خرابات میں رہے
انساں وہ ہے کہیں جو کسی پر گراں نہ ہو

اپنی بھی سر گذشت ہے اک طرفہ داستاں
برسوں سنو تو نصف یہ قصہ بیاں نہ ہو

دل سے ہے دل کو راہ یہ سچ ہے اگر حفیظؔ
ممکن نہیں خیال یہاں ہو وہاں نہ ہو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse