قاصد آیا مگر جواب نہیں
قاصد آیا مگر جواب نہیں
میرے لکھے کا بھی جواب نہیں
خم تو ہے ساقیا شراب نہیں
آسماں ہے اور آفتاب نہیں
بن کے بت سب وہ کہہ گزرتے ہیں
بے دہانی ترا جواب نہیں
صبح ہوتے وہ گھر گئے اپنے
اب نکلنے کا آفتاب نہیں
نور وہ ہے کہ کچھ نہیں کھلتا
ہے ترے رخ پہ یا نقاب نہیں
طور کے ذکر پر چمک اٹھے
بات کی ان بتوں کو تاب نہیں
گرچہ دنیا ہے آئینہ خانہ
میرا ثانی ترا جواب نہیں
بن گیا ہے نقاب چہرے کی
کہ اترتا کبھی عتاب نہیں
رخ سے افشاں چھڑا کے کہتے ہیں
آج تاروں میں ماہتاب نہیں
چاند کو رات کیا چھپائے گی
زلف رخ کے لئے نقاب نہیں
چڑھ کے اتریں گی تیوریاں سو بار
کچھ یہ چڑھتا ہوا شباب نہیں
کچھ نہیں میرے بے شمار گناہ
وہ اگر برسر حساب نہیں
ڈھل کے کہتا ہے چودھویں کا چاند
ایک شب سے سوا شباب نہیں
مے تو ڈھل کر رہے گی اے ساقی
کچھ یہ معشوق کا شباب نہیں
مے کدہ بھی بہشت ہے لیکن
مفت ملتی یہاں شراب نہیں
سن کے یہ پردے سے نکل آئے
تیری تصویر کا جواب نہیں
آہ کو سن کے منہ چھپاتے ہو
ایک جھونکے کی بھی نقاب نہیں
ختم ہوتی نہیں ہوس دل کی
ایک طوفان ہے شباب نہیں
دل جلے جب مزہ ہے رونے کا
مے ہے پانی اگر کباب نہیں
عشق میں ہے جلیلؔ لا ثانی
حسن میں یار کا جواب نہیں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |