قاصد آیا مگر جواب نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
قاصد آیا مگر جواب نہیں
by جلیل مانکپوری

قاصد آیا مگر جواب نہیں
میرے لکھے کا بھی جواب نہیں

خم تو ہے ساقیا شراب نہیں
آسماں ہے اور آفتاب نہیں

بن کے بت سب وہ کہہ گزرتے ہیں
بے دہانی ترا جواب نہیں

صبح ہوتے وہ گھر گئے اپنے
اب نکلنے کا آفتاب نہیں

نور وہ ہے کہ کچھ نہیں کھلتا
ہے ترے رخ پہ یا نقاب نہیں

طور کے ذکر پر چمک اٹھے
بات کی ان بتوں کو تاب نہیں

گرچہ دنیا ہے آئینہ خانہ
میرا ثانی ترا جواب نہیں

بن گیا ہے نقاب چہرے کی
کہ اترتا کبھی عتاب نہیں

رخ سے افشاں چھڑا کے کہتے ہیں
آج تاروں میں ماہتاب نہیں

چاند کو رات کیا چھپائے گی
زلف رخ کے لئے نقاب نہیں

چڑھ کے اتریں گی تیوریاں سو بار
کچھ یہ چڑھتا ہوا شباب نہیں

کچھ نہیں میرے بے شمار گناہ
وہ اگر برسر حساب نہیں

ڈھل کے کہتا ہے چودھویں کا چاند
ایک شب سے سوا شباب نہیں

مے تو ڈھل کر رہے گی اے ساقی
کچھ یہ معشوق کا شباب نہیں

مے کدہ بھی بہشت ہے لیکن
مفت ملتی یہاں شراب نہیں

سن کے یہ پردے سے نکل آئے
تیری تصویر کا جواب نہیں

آہ کو سن کے منہ چھپاتے ہو
ایک جھونکے کی بھی نقاب نہیں

ختم ہوتی نہیں ہوس دل کی
ایک طوفان ہے شباب نہیں

دل جلے جب مزہ ہے رونے کا
مے ہے پانی اگر کباب نہیں

عشق میں ہے جلیلؔ لا ثانی
حسن میں یار کا جواب نہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse