قاروں اٹھا کے سر پہ سنا گنج لے چلا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
قاروں اٹھا کے سر پہ سنا گنج لے چلا
by بہادر شاہ ظفر

قاروں اٹھا کے سر پہ سنا گنج لے چلا
دنیا سے کیا بخیل بجز رنج لے چلا

منت تھی بوسۂ لب شیریں کہ دل مرا
مجھ کو سوئے مزار شکر گنج لے چلا

ساقی سنبھالتا ہے تو جلدی مجھے سنبھال
ورنہ اڑا کے پاں نشۂ بنج لے چلا

دوڑا کے ہاتھ چھاتی پہ ہم ان کی یوں پھرے
جیسے کوئی چور آ کے ہو نارنج لے چلا

چوسر کا لطف یہ ہے کہ جس وقت پو پڑے
ہم بر چہار بولے تو برپنج لے چلا

جس دم ظفرؔ نے پڑھ کے غزل ہاتھ سے رکھی
آنکھوں پہ رکھ ہر ایک سخن سنج لے چلا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse