قاتل کے کوچہ میں ہمہ تن جاؤں بن کے پاؤں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
قاتل کے کوچہ میں ہمہ تن جاؤں بن کے پاؤں
by منشی دیبی پرشاد سحر بدایونی

قاتل کے کوچہ میں ہمہ تن جاؤں بن کے پاؤں
مر کر ہی تاکہ سو تو ذرا پاؤں تن کے پاؤں

کیوں کر رکھوں میں سیر کو اندر چمن کے پاؤں
اک عمر سے تو ہو رہے خوگر ہیں بن کے پاؤں

بھاری ہیں نازکی سے جو مہندی میں سن کے پاؤں
کہتے ہیں کر دیے مرے کیوں لاکھ من کے پاؤں

کیا ساتھ میرا دشت نوردی میں کر سکے
دو چار چوکڑی میں گئے تھک ہرن کے پاؤں

ہاتھوں کو ہے ہوا سے گریباں دری ہنوز
صحرا طلب ہیں مر کے بھی اندر کفن کے پاؤں

آنا ہے دیر دیر تو جانا ہے جلد جلد
رفتن کے اور ہیں ترے اور آمدن کے پاؤں

صدمہ سے ہاتھ کے کہیں گٹا اتر نہ جائے
کیوں کر دباؤں اس بت نازک بدن کے پاؤں

اے دل تو دیکھ اس کی سر زلف میں نہ جا
ناداں ہے سر پہ جو رکھے کالے کے پھن کے پاؤں

کچھ آج یہ بھی آتا ہے رندو پئے ہوئے
پڑتے ہیں بہکے بہکے جو شیخ زمن کے پاؤں

پہنچا ہے اب تو سحرؔ کلام اپنا دور دور
شہرت سے لگ گئے ہیں ہمارے سخن کے پاؤں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse