فکر ہے شوق کمر عشق دہاں پیدا کروں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
فکر ہے شوق کمر عشق دہاں پیدا کروں
by امیر اللہ تسلیم

فکر ہے شوق کمر عشق دہاں پیدا کروں
چاہتا ہوں ایک دل میں دو مکاں پیدا کروں

طبع عالی سے اگر اوج بیاں پیدا کروں
میں زمین شعر میں بھی آسماں پیدا کروں

ہوں میں وہ دل سوختہ تاثیر آہ گرم سے
گلشن جنت میں بھی دور خزاں پیدا کروں

پاؤں کہتے ہیں ترے کوچے میں آ کر ضعف سے
تو گرا دے اور میں خواب گراں پیدا کروں

اب بھی تم آؤ تو میں آنکھوں میں بہر یک نظر
ڈھونڈ کر تھوڑی سی جان ناتواں پیدا کروں

میں ہوں اے تسلیمؔ شاگرد نسیمؔ دہلوی
چاہیئے استاد کا طرز بیاں پیدا کروں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.