فکر منزل ہے نہ ہوش جادۂ منزل مجھے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
فکر منزل ہے نہ ہوش جادۂ منزل مجھے
by جگر مراد آبادی

فکر منزل ہے نہ ہوش جادۂ منزل مجھے
جا رہا ہوں جس طرف لے جا رہا ہے دل مجھے

اب زباں بھی دے ادائے شکر کے قابل مجھے
درد بخشا ہے اگر تو نے بجائے دل مجھے

یوں تڑپ کر دل نے تڑپایا سر محفل مجھے
اس کو قاتل کہنے والے کہہ اٹھے قاتل مجھے

اب کدھر جاؤں بتا اے جذبۂ کامل مجھے
ہر طرف سے آج آتی ہے صدائے دل مجھے

روک سکتی ہو تو بڑھ کر روک لے منزل مجھے
ہر طرف سے آج آتی ہے صدائے دل مجھے

جان دی کہ حشر تک میں ہوں مری تنہائیاں
ہاں مبارک فرصت نظارۂ قاتل مجھے

ہر اشارے پر ہے پھر بھی گردن تسلیم خم
جانتا ہوں صاف دھوکے دے رہا ہے دل مجھے

جا بھی اے ناصح کہاں کا سود اور کیسا زیاں
عشق نے سمجھا دیا ہے عشق کا حاصل مجھے

میں ازل سے صبح محشر تک فروزاں ہی رہا
حسن سمجھا تھا چراغ کشتۂ محفل مجھے

خون دل رگ رگ میں جم کر رہ گیا اس وہم سے
بڑھ کے سینے سے نہ لپٹا لے مرا قاتل مجھے

کیسا قطرہ کیسا دریا کس کا طوفاں کس کی موج
تو جو چاہے تو ڈبو دے خشکئ ساحل مجھے

پھونک دے اے غیرت سوز محبت پھونک دے
اب سمجھتی ہیں وہ نظریں رحم کے قابل مجھے

توڑ کر بیٹھا ہوں راہ شوق میں پائے طلب
دیکھنا ہے جذبۂ بے تابئ منزل مجھے

اے ہجوم ناامیدی شاد باش و زندہ باش
تو نے سب سے کر دیا بیگانہ و غافل مجھے

درد محرومی سہی احساس ناکامی سہی
اس نے سمجھا تو بہر صورت کسی قابل مجھے

یہ بھی کیا منظر ہے بڑھتے ہیں نہ رکتے ہیں قدم
تک رہا ہوں دور سے منزل کو میں منزل مجھے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse