فکر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
فکر
by مجاز لکھنوی

نہیں ہر چند کسی گمشدہ جنت کی تلاش
اک نہ اک خلد طرب ناک کا ارماں ہے ضرور
بزم دو شنبہ کی حسرت تو نہیں ہے مجھ کو
میری نظروں میں کوئی اور شبستاں ہے ضرور

مٹ کے برباد جہاں ہو کے سبھی کچھ کھو کے
بات کیا ہے کہ زیاں کا کوئی احساس نہیں
کار فرما ہے کوئی تازہ جنون تعمیر
دل مضطر ابھی اماجگۂ یاس نہیں

تازہ دم بھی ہوں مگر پھر یہ تقاضا کیوں ہے
ہاتھ رکھ دے مرے ماتھے پہ کوئی زہرہ جبیں
ایک آغوش حسیں شوق کی معراج ہے کیا
کیا یہی ہے اثر نالۂ دل ہائے حزیں

مہ وشوں کا طرب انگیز تبسم کیا ہے
ہے تو سب کچھ یہ مگر خواب اثر کیوں ہو جائے
حسن کی جلوہ گہہ ناز کا افسوں تسلیم
یہی قرباں گۂ ارباب نظر کیوں ہو جائے

میں نے سوچا تھا کہ دشوار ہے منزل اپنی
اک حسیں بازوے سیمیں کا سہارا بھی تو ہے
دشت ظلمات سے آخر کو گزرنا ہے مجھے
کوئی رخشندہ و تابندہ ستارہ بھی تو ہے

آگ کو کس نے گلستاں نہ بنانا چاہا
جل بجھے کتنے خلیل آگ گلستاں نہ بنی
ٹوٹ جانا در زنداں کا تو دشوار نہ تھا
خود زلیخا ہی رفیق مہ کنعاں نہ بنی

بہ ایں انعام وفا اف یہ تقاضائے حیات
زندگی وقف غم خاک نشیناں کر دے
خون دل کی کوئی قیمت جو نہیں ہے تو نہ ہو
خون دل نذر چمن بندئ دوراں کر دے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse