فٹ پاتھ
شہر میں سڑکوں کی دونوں طرف کی دنیا ہر جگہ یکساں نہیں ہوتی۔ کہیں بھرے بازار کے درمیان سڑک یوں نرمی سے بل کھاتی ہوئی گذرتی ہے جیسے مشتاقوں کے ہجوم میں حسن سرمحفل۔ آمدورفت کی کثرت سے کھوئے سے کھوئے چھلتے ہیں۔ کہیں شاندار رہائشی محلوں سے اس کا گذر ہوتا ہے۔ دو طرفہ نئی وضع کی کوٹھیاں، سبزہ زار احاطے، دھنک کی طرح رنگ برنکی ہنستی ہوئی کیاریاں، جدید فیشن کے لباس، ناز فرماتی ہوئی ساریاں،نغمہ زن بالا خانے اوردھومیں مچاتی ہوئی موٹریں اور کہیں مفلوک الحال حلقوں کا جگر چیرتی ہوئی یہ سڑکیں یوں تیر جاتی ہیں جیسے اُپی ہوئی تلوار۔
بڑی سڑکوں کے حاشیوں پر فٹ پاتھ کا وجود ان کے وقار میں اضافہ کرتا ہے۔ سڑکوں کی بہ نسبت فٹ پاتھ کی دنیا ذرا آہستہ خرام کرتی ہے۔ سڑک ندی کے درمیانی دھارے کی طرح ہوتی ہے اور فٹ پاتھ موجِ ساحل آشنا کی مثال۔ مگر فٹ پاتھ کی دنیا حرکت و سکون دونوںکے مناظر پیش کرتی ہے۔ لہٰذا زیادہ دلچسپ ہے۔ رہرروں کے علاوہ فٹ پاتھ کی آغوش میں بہت سی ہستیاں ہوتی ہیں۔ جمادات، نباتات، حیوانات اور اشرف المخلوقات بھی، جی ہاں اشرف المخلوقات بھی جس پرحوریں رشک کریں اور جن کے سامنے فرشتے سجدے میں گریں۔
میونسپلٹی کے ٹین اپنی الا بلا، کوڑے کرکٹ، بہارن کے ساتھ ایسے دکانداروں کے پلنگ جو صرف نفع کمانا، قانون کودھوکا دینا اور ساری دنیا کو اپنا سمجھنا جانتے ہیں۔ صرف پلنگ ہی نہیں، بنچ، کرسیاں، ٹوکرے، دیودار کے بکس وغیرہ وغیرہ۔ ہندوستانی وزیروں کی طرح موٹے تازے، ہچکتے دمکتے مگر مجبور و پابہ گل لیٹر بکس اور حیوانات میں بکریاں، گائیں گھوڑے، گدھے، کتے اور سب کے سبھاپتی سانڈ دوسروں کی کمائی کھانا خود بیکاررہنا اور دندنانا۔ ویسے ساہوکاروں ، کارخانہ داروں اور زمینداروں کی طرح، سانڈ بھی کچھ نہ کچھ کام کرتے ہی رہتے ہیں۔ نباتات میں میوے کی بڑی دکانوں سے پھیکے ہوئے چھلکے اور ایسی ٹوکریوں کے بیر، خراب و خستہ کے لیے اور آدھی سڑی ہوئی نارنگیاں جن کی پوری کائنات ایک گوشے میں سما جاتی ہے۔ غرض یہی ہستیاں فٹ پاتھ کی رونق ہوتی ہیں۔ مگر جو اشرف المخلوقات نہ ہوتا تو آسمان و زمین ، جمادات، نباتات و حیوانات کہاں ہوتے۔ فٹ پاتھ پر اشرف المخلوقات بھی ہوتے ہیں۔ مسلسل سدا لگائے ہوئے فقیر، اپاہج بھک منگے، بھنکتے ہوئے کوڑھی جو اپنے ٹھنٹہ ہاتھوں کو دکھاکر صرف سوالیہ اشارے کرتے ہیں۔ ایسے زار ونزار مختاج جو برائے نام سا چیتھڑا سامنے بچھاکر بے حس و حرکت لیٹے رہتے ہیں۔ نصف درجن سے زیادہ گندے اور ادھ موئے بچوں والی عورت جو بیر یا شکر قند، رکشا والوں اور قلیوں کے ہاتھ بیچتی ہیں۔ایک پلہ نما بچہ ربود کرتی سے ڈھکی ، ڈھلکی ہوئی خشک چھاتیوں کو اس طرح چاٹتا ہوا جیسے کوئی غریب جو آم کے پھینکے ہوئے چھلکوں کو رس گل جانے کے بعد بھی چاٹ لینا پسند کرے۔ میلے برقعے کے اندر سے نکیاتی ہوئی سائلہ عورت۔ چائے کی پھینکی ہوئی سیٹھی سے بننے والی چائے بیچنے والے اور ان کے گرد بیکار اور تھکے ہوئے مزدور۔ اور راتوں کو انہیں فٹ پاتھوں کے سینوں کی دبی ہوئی آگ دہک اٹھتی ہے۔ خالی خولی ہانڈیوں میں چند دانے ابلتے ہیں۔ پانی کے ابال کی آواز دھرتی کی کراہ معلوم ہوتی ہے۔ بھوکے پیٹوں کو جگا کر فٹ پاتھ پر زندگی بسر کرنے والے سونے کی نقل کرنے کے لیے زمین پر دراز ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح زندگی کا چکر چلتارہتاہے اور قسمت کے بہانے برداشت کر لیا جاتا ہے۔
آج میں آپ کو فٹ پاتھ ہی سے متعلق ایک کہانی سنانے والا ہوں۔ نہ جانے کتنی بن کہی اور ان سنی کہانیاں فٹ پاتھوں سے گرد راہ کی طرح لپٹی ہوئی ہوں گی۔
دس سال کی عمرکا ایک لڑکا میرے مکان کے سامنے سڑک کے چھوٹے سے پل پر بیٹھا ہوا تھا۔ پائوں پھیلائے ہوئے، بے پروا آزاد، کمر میں لنگوٹی کسی بے شرم کی یونہی سی لاج کی طرح چپکی ہوئی۔ گردن سے ایک میلا، ڈھیلا، ڈھالا، چور چور کسی کا اتارن کرتہ جھول رہا تھا۔ شکستہ کرتے کے چاکوں کو ایک حد تک چھپانے میں سیاہ مرزئی مدد دے رہی تھی، جو خود بھی اکثر جگہ خندئہ دنداں نما کی شکل پیدا کررہی تھی۔ یہ مرزئی بھی یوں تھی جیسے چھوٹے تکئے کا خول پہنا دے۔ کرتا جانگھ تک آتا تھا اور سامنے پھٹے ہونے کے سبب جسم زیریں کی عریانی کو دور کرنے کی بجائے، اس کے ننگے ہونے کا پردہ فاش کررہا تھا اور اس کے بال الجھے ہوئے تھے اور اس کے سیاہ ہاتھ پائوں پر گرد کی تہیں نمایاں طور پر جمی ہوئی معلوم ہو رہی تھی۔ زمین کی خاک اور جسم کے پسینے نے مل کر یہ ابٹنا تیار کیا تھا۔ وہ شاید بہت دیر سے بیٹھا ہوا تھا۔ سہ پہر کی دھوپ نے جا بجا پسینہ چلا کر ابٹنے کو ہلکا کر دیا تھا۔ سر کے بال پسینے میں چپک رہے تھے۔ وہ سنہری دھوپ سے لطف اٹھا رہا تھا۔ دنیا سے لاپروا ہو کر وہ اپنی مرزئی کے اوپر کی چلٹیریں مارہا تھا اور گاہ گاہ اپنا بدن تیزی سے کھجا لیا کرتاتھا۔ میرا محلہ شہر کا ایک خاموش حصہ تھا۔ دو جانب کالج کے کوارٹر تھے، تیسری جانب دریا اور چوتھے جانب درمیانی اور ادنیٰ طبقے کے لوگوں کے کچھ مکانات ، وہ نا جانے ادھر کیسے آنکلا۔ شاید پکنک کے لیے روزمرہ کے ہنگاموں سے تنگ آکر محض یونہی آج اس کی ٹانگیں ادھر ہی اسے لے آئیں۔ جاڑے کے دن تھے۔ دسمبر کا مہینہ اسے دھوپ میں بڑے اطمینان و سکون سے بیٹھا دیکھ کر یہ اثر ہوتا تھا جیسے کوئی بچہ ماں کی گود میں عالم رنج و حسرت کوبھول کر آسودگی و طمانیت کے ساتھ بیٹھا ہوا ابدیت کے ساتھ رشتہ جوڑ رہا ہو۔
میرا ملازم اسے بلا کر میرے مکان کے اندر لے آیا۔ پہلے تواس نے پکار تک نہ سنی۔ وہ اتنا محو تھا ۔ شور کرنے سے وہ چونکا، مگر شان سے پل ہی پر بیٹھا رہا۔ جب اسے اندر بلایا گیا تو اس نے بہت ہی مشکوک تیور سے ماحول کو بھانپا اور پھر چپلٹیریں مارنے لگا۔ خوشامدیں کرنے، چمکارنے اور دلاسے دینے پر مشکلوں سے وہ کشاں کشاں یوں اندر لایا گیا جیسے چھتر کے میلے سے ایک نئے اڑتے ہوئے گریزاں بچھڑے خرید کر کوئی کسان ڈریاتا ہوا لیے جارہے ہو۔
شاید وہ کچھ بہرا بھی تھا اور اس کی دونوں آنکھوں میں پھولیاں تھیں۔ ایک میں زیادہ، دوسری میں کم۔ وہ گھر کی چار دیواری کے اندر گھبرایا گھبرایا سا معلوم ہورہا تھا۔ نو گرفتار پرندے کی طرح، سائبان سے دوڑ کر وہ انگنائی میں چلا گیا اورکنوئیں کی منڈیر پر لاپروائی سے بیٹھ گیا۔ گردن نیچی کئے ہوئے وہ شرما کر دانت نکالے آہستہ آہستہ ہنس رہا تھا۔ اسکے دانت پیلے پیلے تھے۔ پھسی سے اٹے ہوئے جیسے دانتوں پر سونا چڑھایا جاتاہے۔ ہم لوگوں نے اسے کھانا دیا۔ وہ بہ مشکل کھانے پر راضی ہوا مگر جب کھانے لگا تو بھوکے کتے کی طرح کھانے پر ٹوٹ پڑا۔ صحن میں بیٹھا بیٹھا جب وہ رکابی صاف کرچکا تو تیزی سے گرسنہ بھڑئیے کی طرح وہ باورچی خانے میں گھس گیا اور کھانے کی مزید چیزیں تلاش کرنے لگا۔ قاب، ہانڈیاں ، پیالے، ٹکریاں سب اس نے الٹ پلٹ کرنی شروع کیں، باورچی نے اسے ڈانٹ بتائی، ہم لوگوں نے اسے سمجھایا کہ یہ بدتمیزی ہے اورکھانا ہو تو مانگ کر کھایا کرو۔ مگر یہ باتیں اس کی سمجھ سے باہر تھیں۔ وہ اس وقت تک بے چین رہا جب تک اسے کچھ اور کھانے کو نہ مل گیا۔
دوبارہ کھا کر بھی اس کے تقاضے جاری رہے۔ ہم لوگوں نے اسے سمجھایا کہ اب رات کوکھانا پیٹ بھر پھر ملے گا۔ وہ کچھ مایوسی اورجھلاہٹ کے عالم میں رکابی سے دال اورشوربا چاٹنے لگا۔ چاٹ واٹ کر رکابی کو ایک طرف نہایت ہی بے توجہی سے سرکادیا اور کنوئیں کی منڈیر پر جا کر بیٹھ گیا۔ بے تعلق سا ، بے حس، بے فکر، وہ بہت ہی کم باتوں کا جواب دیتا تھا۔ ہم لوگوں کوگملوں اورچمن کی آبپاشی کے لیے ایک ایسے چھوکرے کی ضرورت تھی جو اوپر کے اور کام بھی کردیا کرے، اس لونڈے کوہم نے خداداد سمجھا۔ کم دانے گھاس میں یہ بہت سے کام کر دیتا۔ خودغرضی اور جذبہ ترحم نے مل کر ہم میں یہ شدید خواہش پیدا کی کہ کسی طرح یہ باد آور د ہمارے ہاں ٹک جائے۔ ہم لوگوں نے اسے سمجھانا شروع کیا کہ وہ نوکر ہو کر یہاں اگررہ جائے تو اسے خوب کھانے کو ملے گا، اچھے صاف صاف کپڑے پہننے کو ملیں گے اور پیسے بھی۔ وہ چپ سنتا رہا۔ کبھی کبھار اپنے پیلے پیلے دانت نکال کر ہنس دیتا۔ عجیب طرح کی بے تعلق ، بے جذبے کی کھوکھلی سی ہنسی۔ ہم لوگوں نے اسے نہانے کو کہا، وہ فوراً تیار ہو گیا۔ اسے نہانے کو کپڑا دھونے والا صابن دیاگیا۔ اس نے اسے سونگھا اور منہ بنا لیا۔ پھر ہنستا ہوا نہانے کے لیے کل پر بیٹھ گیا۔ اسے ایک پرانا ہاف پینٹ اور ایک پرانی قمیص دی گئی۔ اس نے خوش خوش انہیں پہنا۔ بٹن لگاتے وقت اسے بڑا لطف آرہاتھا۔ کئی بار بٹن کھول کھول کر انہیں لگائے۔ وہ جدت کا لطف لے رہاتھا۔ اپنے کرتے اور مرزئی میں اس قسم کی نامعقول بندشیں نہیں تھیں۔ نہادھو کپڑے بدل کر وہ سیدھا باورچی خانے میں گھس گیا اور اب کے اس نے باورچی سے بہ منت کچھ اور کھانے کو مانگا۔ چند سوکھی روٹیاں اسے دے دی گئیں اور اس نے انہیں ہفتوں کے بھوکے کی طرح دو تین لقموں میں ختم کر دیا ۔ کھا کر وہ اٹھا اور اپنے پھٹے پرانے کرتے میلی چکٹ لنگوٹی اور چیلٹروں سے اٹی ہوئی مرزئی کو لپیٹ لپاٹ کر سنبھال کے آنگن کے ایک گوشے میں ٹوٹے ہوئے گھڑے پر رکھ دیا۔ اس کے بعد وہ سیدھا میرے پاس آیا۔ اور غیر متوقع جرأت سے اس نے سوال کیا۔
’’کتنا مشارا دو گے؟‘‘
میں نے کہا۔۔۔۔ ’’ٹھکانے سے کام کر۔ کھانا ، کپڑا، مشاہرہ سب ملیں گے‘‘۔
کہنے لگا ددنہیں بول دو کتنا ملے گا؟‘‘
میں نے ہنس کر کہا ’’ابے تومشاہرہ لے کہ کیا کرے گا؟ خوب بھر پیٹ کھایا کر اور پیسے لے لیا کردو ایک‘‘۔
’’اونہہ! تب ہم نہیں رہیں گے‘‘۔
’’مشاہرہ بھی ملے گا توگھبراتا کیوں ہے؟ تیرا گھر کہاں ہے؟‘‘ میں نے اسے تسلی دی۔
مجپھڑ پورجلع‘‘۔
میں نے دریافت کیا ’’ماں باپ ہیں؟‘‘
اس نے کہا ’’نہیں! کوئی نہیں!‘‘ اور نفی میں زور سے سر ہلاتا رہا۔
’’بھائی بہن؟‘‘
’’کہہ تودیا کوئی نہیں‘‘۔ وہ بگڑ سا گیا۔
’’اچھا تجھے مشاہرہ دونگا۔ میرے پاس جمع کرانا، اس سے بہت سے کپڑے بنا لینا اور مٹھائیاں کھانا‘‘۔
’’نہیں مشاہرہ ہاتھ میں لیں گے‘‘۔
’’ہاتھ میں لے کر کیا کرے گا؟ پھینک دے گا، اورکیا! یا گرجائیں گے روپے کہیں‘‘۔
’’نہیں! ہم کو مکان بنانا ہے‘‘۔ اس نے شان و وقار کے ساتھ کہا۔ میں بھی چونک گیا اور سب لوگ ہنسنے لگے۔ اسے چوٹ سی لگی کہنے لگا۔
’’میرے بھی مکان ہے جی! جلجلہ میں گر گیا ہے تھوڑا۔ دو کوٹھڑی ہے! اس کے سیاہ چہرے پر خون نے دھپے ہوئے توے کارنگ پیدا کر دیا۔
میں نے کہا۔ ’’اچھا بنانامکان ۔ تیرے ہاتھ میں روپے دونگا‘‘۔ وہ خوش ہو گیا اور ہنسنے لگا۔ اس نے یہ بھی نہ پوچھا پھرکتنا مشاہرہ ہوگا۔ اس کے دل میں بھی حسرت ِتعمیر اور تمنائے ملکیت تھی۔ اسی حسرت، اسی تمنا کے پورا ہونے کا تصور ہی اتنا خوش آئند تھاکہ وہ سرمست ہوگیا۔
وہ مکان کے بیرونی احاطے میں جا کر بیٹھ رہا۔ جب اسے کسی کام کے لیے بلایا جاتاتو وہ چلا آتا اور کام کو ادھورا ہی چھوڑ کر پھر باہر احاطے میں جا بیٹھتا۔ اسے ایک دو بار سمجھانے کی کوشش کی گئی مگر وہ اپنی جگہ پر اٹل تھا۔ ہم لوگوں نے یہ سمجھ کر کہ ابھی زور دینا ٹھیک نہیں چپ ہو رہے کہ کہیں وہ بھاگ نہ جائے۔ اب رات ہو چلی اور اور وہ مزے میں صحن میں بیٹھا رہا۔ کھانا کھانے کے لیے اندر آیااور پھر باہر چل دیا۔ بڑی دقتوں سے اسے سلانے کے لیے اندر لایا گیا۔ اب وہ کوٹھری کے اندر سونے پر رضامند نہیں۔ رات بھر وہ سائبان ہی میں سوتارہا۔ غضب کی سردی تھی مگر وہ توکھلی فضا کا پنچھی تھا۔ اسے اوڑھنے کے لیے ایک کمبل دے دیا گیا جسے اس نے نہایت استغنا کے ساتھ سرسری طور پر لے لیا۔
صبح ہوتے ہی وہ احاطے میں جا پہنچا۔ صرف قمیص اور ہاف پینٹ پہنے ہوئے اسے بلاکر چولہے کے پاس باورچی خانے میں بٹھایا گیا۔ وہاں وہ چپکا بیٹھارہا۔ جب ہم لوگوں کے ناشتے کے بعد اسے روٹی کھانے کو مل چکی تومیرے پاس آیا اورکہنے لگا۔
’’ہم جا کے چادر لی آویں؟‘‘
میں نے پوچھا ’’کہاں ہے تیری چادر؟‘‘
اس نے نہایت صفائی سے جواب دیا ’’فٹ پاتھ پر‘‘۔
’’ارے فٹ پاتھ پرکہاں؟‘‘
’’جہاں ہم روج سوتے تھے۔ حاطہ کے ٹٹی میں لُکا کے رکھ دیا ہے‘‘۔
اب وہ جانے کے لیے بے چین تھا۔ میں نے کہا۔۔۔۔ ’’تجھے دوسری چادر مل جائے گی مت جا!‘‘
مگر اس نے ایک نہ سنی اور جانے پر مصر ہوا۔ ملازموں نے اسے زبردستی روکنا چاہا تو وہ زورزور سے رونے لگا۔
میں نے آخرش اسے جانے کی اجازت دے دی۔ وہ چھلانگ لگا کراحاطے کے اندر چلاگیا اور وہاں سے یک بیک لوٹ کر اندر آیا۔ اس نے صحن کے گوشے میں جا کر قمیص اتاردی۔ اپنا میلا سا ربود کرتہ اورمرزئی پہنی اورہاتھ میں لنگوٹی کا چیتھڑا لے کر باہر جانے لگا۔
میں نے اسے کہا ’’ارے یہ کیا! اپنی چادر لے کر تو واپس نہیں آئے گا کیا؟‘‘
وہ بلاجواب دئیے پھرتی سے احاطے سے باہر نکل گیا اور پھاٹک سے باہرہو کردوڑتا ہوا بھاگا۔ یہ جا وہ جا۔
فٹ پاتھ اسے آوازدے رہا تھا۔ اس نے اپنی ماں کی آواز سن لی۔ کل کا بھولا بچہ اپنے گھر لوٹ چکا تھا۔
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |