فلک کی گردشیں ایسی نہیں جن میں قدم ٹھہرے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
فلک کی گردشیں ایسی نہیں جن میں قدم ٹھہرے  (1900) 
by حبیب موسوی

فلک کی گردشیں ایسی نہیں جن میں قدم ٹھہرے
سکوں دشوار ہے کیوں کر طبیعت کوئی دم ٹھہرے

قضا نے دوستوں سے دیکھیے آخر کیا نادم
کئے تھے عہد و پیماں جس قدر وہ کل عدم ٹھہرے

چھوا تو نے جسے مارا اسے اے افعئ گیسو
یہ سب تریاق میرے تجربہ کرنے میں سم ٹھہرے

کیا جب غور کوسوں دور نکلی منزل مقصد
کبھی گر پائے شل اٹھے تو چل کر دو قدم ٹھہرے

لگا کر دل جدا ہونا نہ تھی شرط وفا صاحب
غم فرقت کی شدت سے کرم جور و ستم ٹھہرے

جو کچھ دیکھا وہ آئینہ تھا آنے والی حالت کا
جہاں دیکھا یہی آنکھوں کے کانسے جام جم ٹھہرے

عمل کہنے پہ اپنے حضرت واعظ کریں پہلے
گنہ کے معترف جب ہیں تو وہ کب محترم ٹھہرے

جوانی کی سیہ مستی میں وصف زلف لکھا تھا
بڑھا وہ سلسلہ ایسا کہ ہم مشکیں قلم ٹھہرے

یہ ثابت ہے کہ مطلق کا تعین ہو نہیں سکتا
وہ سالک ہی نہیں جو چل کے تا دیر و حرم ٹھہرے

بشر کو قید کلفت مایۂ اندوہ و آفت ہے
رہے اچھے جو اس مہماں سرا میں آ کے کم ٹھہرے

حبیبؔ ناتواں سے راہ الفت طے نہیں ہوتی
عجب کیا گر یہ رستہ جادۂ ملک عدم ٹھہرے

This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.

Public domainPublic domainfalsefalse