فلک چکر میں کیوں چونسٹھ گھڑی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
فلک چکر میں کیوں چونسٹھ گھڑی ہے
by عاشق اکبرآبادی

فلک چکر میں کیوں چونسٹھ گھڑی ہے
گرہ اس کے بھی طالع میں کڑی ہے

کوئی عیسیٰ نفس ہے آنے والا
اجل گوشہ میں وہ دبکی کھڑی ہے

ترے در پر ہجوم عاشقاں ہے
تمنا بھی تمنائی کھڑی ہے

تبسم سے ترے گلشن میں ہے نور
گلوں پر چاندنی لوٹی پڑی ہے

اگر عاشق نہیں موئے کمر پر
یہ چوٹی کس لئے پیچھے پڑی ہے

کوئی ہٹتی ہے حسرت ان کے در سے
کھڑی ہے ڈٹ گئی ہے جا اڑی ہے

بہ وقت ذبح بسمل تیغ ہوگی
دل عاشق کو ایسی تر پھڑی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse