فلک نے رنج تیر آہ سے میرے زبس کھینچا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
فلک نے رنج تیر آہ سے میرے زبس کھینچا
by سراج الدین خان آرزو

فلک نے رنج تیر آہ سے میرے زبس کھینچا
لبوں تک دل سے شب نالے کو میں نے نیم رس کھینچا

مرے شوخ خراباتی کی کیفیت نہ کچھ پوچھو
بہار حسن کو دی آب اس نے جب چرس کھینچا

رہا جوش بہار اس فصل گر یوں ہی تو بلبل نے
چمن میں دست گلچیں سے عجب رنج اس برس کھینچا

کہا یوں صاحب محمل نے سن کر سوز مجنوں کا
تکلف کیا جو نالہ بے اثر مثل جرس کھینچا

نزاکت رشتہ الفت کی دیکھو سانس دشمن کی
خبردار آرزوؔ ٹک گرم کر تار نفس کھینچا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse