فلسفۂ حسن و عشق (یونانیوں کے نقطۂ خیال سے)
عورت کیا ہے؟ وہ دنیا میں کیوں آئی؟ اس کی ہستی کی علت غائی یعنی اس کا موضوع اصلی کیا ہے؟ یہ اور اس قسم کے بہتیرے سوالات ہیں جو ایک شائستہ دماغ کو متوجہ کر سکتے ہیں اور جن پر ہرمانہ میں کچھ نہ کچھ غور ہوا ہے لیکن ان سب کا مختصر، مگر جامع جواب یہ ہے کہ ’’وہ محبت کی چیز ہے اور دنیا میں محض اسی لئے آئی۔‘‘
محبت کیا ہے؟ ایک مقناطیسی کشش ہے! عورت بغیر چاہنے والے کے رہ نہیں سکتی۔ اس کی نزاکت فطری چاہتی ہے کہ کسی کا سہارا ہو یعنی دو ایک ہوکر رہیں، جہاں یہ خود جان دینے کو تیار ہے۔ یہ چاہتی ہے کہ کوئی اس پر بھی مرتا ہو، دنیا میں یہ صرف محبت کے لئے آئی اور گلے کا ہار بننے بنانے کے لئے، پھولوں کی سیج پر اس کی بہار دیکھئے کہ تھوڑی دیر کے لئے افکار دنیا بھلا کر رہتی ہے۔
عالم خیال عورت کی ایک وسیع دنیا ہے جہاں وہ اپنے جذبات کو فضائے بسیط میں چھوڑ دیتی ہے اور جو باتیں دراصل اس کو حاصل نہیں ہیں ان کا بھی لطف اٹھا لیتی ہے۔ اس کی ساری زندگی حسن و عشق کا فسانہ ہے، وہ خود کسی پر مرتی ہوگی یا کوئی اس پر جان دیتا ہوگا۔ عورت پھنستی ذرا مشکل سے ہے، لیکن جہاں پھنستی ہے اس سے چھٹکارا پسند نہیں کرتی۔ اس کی اصلی غایت زندگی دوسرے کی پھانس ہے لیکن اسے معلوم نہیں کہ جال ڈالنے سے پہلے وہ خود شکار ہو چکتی ہے۔
عورت کتنی ہی پاکیزہ وش ہو، اس خیال سے خالی نہیں ہوتی کہ کوئی اس کی کافر ادائی کا شیدائی ہو۔ اس کی ’’فتوحات‘‘ اس کا سرمایہ نشاط ہیں، جن سے اس کے دل کو راحت ملتی ہے اور جن سے وہ جیتے جی کبھی دستبردار نہیں ہو سکتی۔ وہ وار کرکے رہےگی کیونکہ یہ امر اس کی فطرت میں داخل ہے۔ شانہ سے آنچل خود نہ گرائے لیکن اگر اتفاق سے گر جائے تو وہ دل میں خوش ہوگی، یہ اس کی فطرت کا راز ہے جسے وہ ہی خوب سمجھتی ہے۔ دہرائے ہوئے آنچل میں دراصل اسے سینے کا ابھار غائب کرنا منظور نہیں بلکہ وہ چاہتی ہے کہ اور نظر جماکر دیکھئے! محرم کا جائزۂ نظری ایک طرح کی داد حسن ہے جو ہزار پارسائی کے ساتھ بھی وہ آپ سے لے کر رہےگی۔ اسی لئے جوانی کی آرائشوں میں دستانہ کی طرح چبھی ہوئی چیز اسے دل سے پسند ہے جس میں یہ ان ’’سرکشوں‘‘ کو قید رکھتی ہے جنہیں عورت کے ’’ارمان مجسم‘‘ کہئے۔
’مے دو آتشہ‘ وہ بھی شباب کی، جب کھچ کھچا کر قدرتی کنٹروں میں بھری ہو، توکون ہے جو ان کیف مستی اور بے خودی کے ’’مجسموں‘‘ کی پرستش کا دلدادہ نہ ہوگا۔ ترکیب عناصر ہی تو ہے۔ ذرا ’فطرت‘ کی شوخی دیکھئےگا۔ ’فتنۂ قیامت زا‘ کے لئے گنجائش نکالی بھی تو کہاں؟ دنیا میں معیار حسن ہمیشہ مختلف رہے اور آج بھی اختلاف مذاق کے لحاظ سے حسن کے لئے کوئی نصاب مشترک قائم نہ ہو سکا۔ تاہم ہر زمانہ میں عورت کا ’’مقیاس الشباب‘‘ دائرہ حسن کا مرکز عام رہا ہے۔ آج تک سننے میں نہیں آیا کہ اہل چین کی چپٹی ناک کی طرح ’’سپاٹ‘‘ سینہ بھی کہیں پسند طبائع ہو۔
موجودہ قیصر جرمنی کو اپنی غیرمعمولی شخصیت کے ساتھ بھی عورت کی ’شہنشاہی‘ کے آگے جھکنا پڑا، آپ صنف نازک کے شائق ہیں لیکن اس کے جو خوبصورت ہاتھوں کے ساتھ ابھرا ہوا اور قائم بالذات سینہ رکھتی ہو۔
اسی لئے حکماء، ’بحرحسن کے اس زوردار تموج‘ کو بہترین عطیہ فطرت کہتے ہیں۔ آپ نسائیت کا اصلی زیور کہئے، اس میں کالی، گوری کی تخصیص نہیں، کوئی ہو، کہیں ہو، صرف جوانی کے آلۂ حرب سے اچھی طرح مسلح ہونے کی ضرورت ہے پھر تو اس کی ’’فتوحات‘‘ کے لئے فضائے کائنات بھی کافی نہیں۔ دنیا اس کے قدموں کے نیچے ہوگی۔
عورت مرد کے مقابلہ میں زیادہ باکیف ہوتی ہے اورجن نزاکتوں کی طرف مرد کا ذہن بھی منتقل نہیں ہوتا یہ ان کو سمجھتی بوجھتی اور قوۃ سے فعل میں لانا چاہتی ہے۔ جیتے جی کسی خوبصورت عورت کی پرستش کا موقع ملے تو سمجھئے خدا نے دنیا میں وہ چیز دی جو بڑے بڑے زاہدوں کو سر رگڑنے کے بعد بھی نصیب نہیں۔ بہشت کا بھی وعدہ ہے۔ چاہنے والی عورت سے بڑھ کر جو پاکباز ہو، دنیا میں کوئی چیز نہیں لیکن قابو میں لانے کے بعد یہ ایک سکنڈ کے لئے بھی چھوڑنے کے لائق نہیں۔
وہ انتہا درجہ کی حساس اور نازک مزاج بھی ہوتی ہے۔ دنیا میں اس سے کسی سے بیر ہے تو چاہنے والوں سے، دوپٹہ میلا ہے تو سمجھ لیجئے چاہنے والے کا قصور ہے۔ عورت کہتی ہے کہ انہیں کو پرواہ نہیں تو بدلیں کس کے لئے۔ وہ خوش ہیں تو بات بات میں بانکپن دیکھ لیجئے، کنگھی چوٹی کا درد سر اسی وقت بھلا معلوم ہوتا ہے جب دل سے دل ملا ہو اور اس کی مانگ ہو۔ عورت کے بناؤ سنگار یعنی آرائش کی چھوٹی چھوٹی باتیں اس کے دل کی حالت کی غماز ہوتی ہیں۔ کسی نے آنکھ بدلی اور یہاں صورت بگڑی، وہاں دلداری ہے تو ادھر بھی دل آرائی دیکھ لیجئے۔ محرم کے بند اگر کھنچ کر بندھے ہوں تو سمجھ لیجئے ’زد‘ پر کوئی ہے جس کے لئے یہ سینے کو ’دُہرے پایہ‘ پر رکھنا چاہتی ہے۔
حسین عورت کے لئے کم سنی لازمی نہیں کہ چڑھتی دوپہر سے ڈھلتی چھاؤں زیادہ خوشگوار ہوتی ہے۔ فلسفہ حسن و عشق کا یہ نہایت باریک نکتہ ہے جو لائق غور ہے۔ عورت وہی باکیف ہوگی جو لذت آشنا ہو اور جس میں لذت احساس کامل ہو۔ یہ عالم فطرت کی نیرنگیاں ہیں، شراب کی طرح کہ جتنی پرانی ہو مزیدار ہوتی ہے، عورت کی عمر کا وہ حصہ جو تیز روشنی کی جگہ تاروں کی چھاؤں یا پچھلے پہر کی چاندنی سے مشابہ ہے، جان دے دینے کے لائق ہوتا ہے۔ ۲۵، ۲۶ برس کی حسین عورت جو صورت کے ساتھ حسن سیرت بھی رکھتی ہو اور جس میں نسائیت کوٹ کوٹ کر بھری ہو، انسانی تخیل کا بہترین مرقع ہے۔
عورت باعتبار جذبات ایک خوبصورت گلدستہ ہے جس کی ساخت میں نہایت نازک پھول پتیاں صرف ہوئی ہوں۔ جس طرح پھول کی پتیوں میں نازک رگیں، نسیں اور باریک نقش و نگار ہوتے ہیں، عورت کا دل ودماغ بھی ہر طرح کی لطافتوں اور نزاکتوں کا مخزن ہوتا ہے۔ جس کے بیل بوٹے قدرت کی بہترین نقاشی ہیں، ان ہی باریک حسیات اور جذبات کا ابھارنا، اور ان کے نشو و ارتقا، ءتدریجی کے سلسلہ کو قائم رکھنا، چاہنے والے کا اصلی فرض ہے۔
عورت ہماری زندگی کے ہر صیغہ کو مس کرنا چاہتی ہے۔ وہ ہماری عقلی اور اخلاقی قوتوں کو حرکت میں لاتی ہے لیکن ایک شائستہ عورت پر وہی قابو حاصل کر سکتا ہے جس میں عورت کے فطری اوصاف کے مقابلہ کی قابلیت موجود ہے۔ جس کے قوی تر جذبات عورت کی قدرتی نزاکتوں اورلطافتوں سے ہم آغوش ہوسکیں۔ اس کے خیال میں صرف آرزوئے ’وصل‘ جس پر ہمارے شعرا سر دھنتے ہیں، نری حیوانیت ہے۔ وہ ’خوش عیشی‘ کے مقابلہ میں ’فلسفۂ ناکامی‘ میں کہیں زیادہ لذت پاتی ہے جو اس کے نازک سے نازک جذبات اور حسیات کو تحریک میں لائے۔ عورت کی ایک آہ جو دل سے نکلی ہو، ہزار صوفیانہ ریاض و اعمال پر بھاری ہے جس میں شائبہ خلوص نہ ہو۔
یہ دنیا میں فطرت کی تکمیل کے لئے آئی اور اسی لئے مہذب دنیا میں اسے انسان کا ’نصف بہتر حصہ‘ کہتے ہیں۔ محبت، دل سوزی، خلوص و ہمدردی اس کا خاصہ فطری ہے، یہ جہاں ہماری خوش دلی کو بڑھاتی ہے، رنج و غم کو بانٹ لیتی ہے۔ صحت میں یہ رفیق زندگی، علالت میں خوش سلیقہ دایہ اور موت کے بعد ہماری خوبصورت سوگوار ہے جس کی ہیرا تراش کلائی میں پھنسی ہوئی سیاہ چوڑیاں اور کھلے ہوئے لمبے بال وہ علامات ماتم ہیں جنہیں جیتے جی دیکھنے کو دل چاہتا ہے۔
آہ عورت! تو فسانۂ زندگی ہے۔ توجس طرح ایک جھونپڑے کو اپنی صاف شفاف ہستی سے شیش محل بنا سکتی ہے، بڑے سے بڑے ایوان عیش کی تکمیل اس وقت تک ممکن نہیں جب تک تیری موجودگی سے آثار اس میں نہ پائے جائیں۔ اس کے لئے چھڑ وں کی جھنکار ضروری نہیں، محض تیرا پس پردہ ہونا کہیں، کسی کے لئے ہو، کافی ہے۔ شیکسپیئر نے سچ کہا ہے کہ ’’تو مجسم عشوہ گری ہے اور دنیا میں بے فوج کی سلطنت تیرا اور صرف تیرا حصہ ہے۔‘‘
یہاں تک تو ’حسن‘ اور اس کے لطیف متعلقات پر شاعرانہ نکتہ سنجیاں تھیں، لیکن مجھے دیکھنا ہے کہ عشق کیاچیز ہے۔ حکما کی رائے کے مطابق یہ ایک جوہر وجدانی ہے۔ انسانی اجسام، انسانی حافظے، انسانی خواہشات فنا ہو جائیں گی لیکن یہ جوہر غیرفانی یعنی عشق ہمیشہ باقی رہنے والی چیز ہے۔
’تصوف‘ صرف مذہب عشق ہے۔ آپ فرط زندگی سے ’حقیقت‘ کے پیچھے پڑے اور جیسے آئے تھے، ستراسی برس کے ریاضات ومجاہدات کے بعد بھی کورے گئے۔ میں نے آنکھ کھولی تو کچھ نہ دیکھ سکا۔ اس لئے آپ کی اصطلاح میں صرف ’عشق مجازی‘ سے غرض رکھی۔ یعنی اپنا ’معبود‘ خود پیدا کر لیا اور تھوڑی سی عمر جو لے کر آیا تھا اس خیال میں گزار دی۔
خدا سر دے تو سودا دے تری زلف پریشاں کا
جو آنکھیں ہوں تو نظارہ ہو ایسے سنبلستاں کا
گوشوارہ پر آپ دیکھیں گے، میرا پاکیزہ تخیل بڑے بڑے زاہدوں کے ’صعوبات لاطائل‘ سے کتنا اچھا رہا۔ وہ عمر بھر روتے رہے اور روتے گئے۔ اور میں نے ہنستے کھیلتے دن کاٹ دیے۔
یہ فقرۂ معترضہ تھا۔ اہل سائنس کا خیال ہے کہ عشق چاہنے والوں میں سے کسی کا اختیاری نہیں، بلکہ ایک جذبۂ اضطراری ہے جو گزشتہ زمانے کے ہزارہا میلان طبائع نے وراثتاً ہمارے لئے چھوڑا ہے۔ ہم کسی عورت کو اس لئے نہیں چاہتے کہ وہ نازنین ہے، پری پیکر ہے، خوش ادائی اور دل فریبی میں آپ اپنی نظیر ہے، بلکہ وہ ہمارے دائرۂ پرستش کا مرکز اس لئے بنی ہوئی ہے کہ وہ ایک ناقابل بیان طریقہ سے جنس مقابل یعنی مرد کے لئے ایک ایسا ’نغمۂ مستانہ‘ چھیڑتی ہے جسے مرد ہی خوب سمجھتا ہے اور جو ہماری زندگی کے جوہر خالص یعنی روح کو ان طبقات بالا تک پہنچاتا ہے جہاں خیال کے سوا کسی چیز کی رسائی نہیں۔ یہ بحث نہایت دلچسپ ہے۔ لیکن مستقلاً اظہار خیال چاہتی ہے۔ یہاں اس کے چھیڑنے کی گنجائش نہیں، پھر کبھی دیکھئے گا۔ سردست ایک مغربی شاعر کے خیالات سنئے جو جذبات میں ڈوبا ہوا ہے اوراپنی معشوقہ یعنی بیوی کے فراق میں یوں اظہار خیال کر رہا ہے۔
’’رات کا پچھلا پہر اور دل ہی دل میں کچھ باتیں۔‘‘
’’میری ہستی بے ثبات کا سب سے بڑا کارنامہ تیری محبت پر قابو حاصل کرنا تھا، میں نہ ہوتا تو یقیناً غیرمفتوح رہتی۔ یعنی کسی کے بس میں آنے والی نہیں تھی۔ کیا دنیا کی کوئی قوت جیتے جی تجھ کو مجھ سے چھڑا سکتی ہے؟ پھر یہ علیحدگی کیسی؟ دیوانگی، استغراق فنا، مذہب عشق کی صرف اصطلاحات ہیں۔ میں تو تجھ میں اس طرح تحلیل ہو گیا ہوں کہ وجود ذاتی کا سرے سے پتہ نہیں! آخر کیوں؟ کیا تیرا دلفریب حسن، تیری کافر ادائیاں اس کا باعث ہیں؟ نہیں! تو عشق مجسم ہے۔ تو مستی شباب کے سوا جذبات میں اس طرح وڈبی ہوئی ہے کہ تیری غایت زندگی صرف محبت ہے اورکچھ نہیں!
ہاں تونے عشق کی کاٹ عشق سے کی اور میں مقابلہ میں ٹھہر نہ سکا یعنی بازی ہاری! ہائے کتنی دلچسپ فتح ہے لیکن آخر مجھے اپنی شکست پرناز کیوں ہے؟ اس لئے کہ یہ ’شکست‘ دنیا کے اور دیوانوں کے حصے میں کبھی نہیں آئی۔ آرزوئیں اور قصہ ہی رہے۔ مطلوب کا ملنا دوسری دنیا کے لئے ا ٹھا رکھا گیا۔ یہ خیال کہ تومجھے چاہتی ہے جان دے دینے کے لئے کافی ہے۔ تجھ کو پاکر چاہئے تھا کہ بے قراری کچھ کم ہوتی، لیکن یہ کیسا روگ ہے جو کسی طرح پنپنے نہیں دیتا، میں دیکھتا ہوں کسی طرح چین نہیں، خاص کر آج کل کی جدائی بلائے جان ہو رہی ہے۔
عرب کی جوشیلی عورت اپنے عاشق سے جدا رہنا پسند نہیں کرتی یعنی وہ فطرتاً ہم آغوشی و ہم بستری کی شائق ہوتی ہے۔ میری پیاری کیا تو کم پرجوش ہے؟ تیری تو رگ رگ میں کوٹ کر بجلی بھری ہوئی ہے، یہ تیری دبی ہوئی چنگاریاں تھیں جن سے میری زندگی کی بجھی ہوئی حرارت دفعتاً بھڑک اٹھی۔
پیاسے کو انگاروں پر لٹانا جب چند قطروں سے پیاس بجھتی ہو! یہی شرط وفا ہے؟ تونے کیوں مجھے وہ گر سکھائے جن سے آج تک ناآشنا سا رہا۔ تونے میری ایک سوئی ہوئی قوت کو جو حاسۂ انسانی میں سب سے زیادہ لطیف و شیریں ہے، چھینٹے دے دے کر جگایا۔ تیری تطبیق اعضائی اور انگوٹھی پرنگ کی سی موزونیت تیری نفاست اور پاکیزگی فطرت کا ایک راز ہے۔ سچ یہ ہے کہ تو یونانیوں کی محض ’زہرۂ عریاں‘ نہیں بلکہ حسن و عشق کی مشترک دیوی ہے۔ جوانانہ خوش فعلیاں ان دنوں خواب و خیال ہو رہی ہیں۔ جب سے تو چھوٹی زندگی وہ نہیں رہی!
میری خاک ایک دن خاک ہوکر رہےگی لیکن وہ جوہر غیرفانی یعنی تیرا عشق میری یا د دلاتا رہےگا، لیکن قبل اس کے یہ صورت پیش آئے، آکر مجھے گلے لگالے۔ زندگی تو آج کا نام ہے، کل اختیاری نہیں! تیرے ساتھ کے چند گھنٹے ہزار زندگیوں کے برابر ہیں۔ دیکھ! میری عمر کا بڑھانا تیرے لئے کتنا آسان ہے، کیسی مجبوری اور کہاں کا رکھ رکھاؤ؟ جس کوچہ میں تونے قدم رکھا ہے وہاں تیسرے کا گزر نہیں۔ ان ڈھکوسلوں سے کیا واسطہ؟ عشق کا فتویٰ تو یہ ہے کہ دو کے سوا تمام دنیا حرف غلط۔
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |